Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 151
وَ لَا تُطِیْعُوْۤا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَۙ
وَلَا تُطِيْعُوْٓا : اور نہ کہا مانو اَمْرَ : حکم الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھ جانیوالے
اور بےباک لوگوں کا کہنا نہ مانو
میں تم سے کہتا ہوں کہ تم ان بےلگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو : 151۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنے پیش روؤں سے زیادہ کھل کر بات اس طبقہ کے لوگوں کے خلاف کہہ دی جو خدایاں دہ وملک تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت اور اہل اولاد میں کشائش دی تھی اور یہ لوگ صاحب ثروت تھے اور کچھ ان میں سے وہ تھے جو مذہب کے نام پر اپنی بڑائی لوگوں سے تسلیم کرا چکے تھے جیسا کہ پہلے بھی ذکر کا جا چکا کہ یہ دونوں گروہ اس قدر بےلگام ہوتے ہیں کہ جو ان کے جی میں آئے کہہ دیتے ہیں اور پھر ان کو کوئی نہیں پوچھ سکتا انہوں نے یہ بات کس دلیل کی بنا پر کہی ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کی شخصیت قوم میں خود ایک دلیل کے طور پر تسلیم ہوتی ہے اگر یہ لوگ ہر دور میں نہ ہوتے یا کم از کم اس موجودہ زمانہ میں نہ ہوتے تو ان کی حیثیت کو سمجھنا مشکل ہوتا لیکن چونکہ یہ دونوں طبقے اس وقت بھی موجود ہیں اور جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اس کے مطابق وہ آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں اس لئے ان کی حیثیت کو سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے ، عوام کو یہ موم کی ناک سمجھتے ہیں اور جس طرف چاہتے ہیں موڑ لیتے ہیں اور خود اس قدر بےلگام ہیں کہ جو ان کے جی میں آئے وہ کر کے دکھا دیتے ہیں اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والوں کی کوئی کمی موجود نہیں یہ چاہیں تو دن کو رات اور رات کو دن کہہ دیں اور لوگ بھی اسی طرح ساتھ ساتھ کہتے چلے جاتے ہیں ، یہ لوگ ہمیشہ ہوا کا رخ دیکھ کر چلتے ہیں اور جونہی ہوا بدلتی ہے یہ بھی ساتھ ہی بدل جاتے ہیں ، ان کا کام ہی یہ ہے کہ عوام کو آپس میں لڑاتے رہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ متحارب رکھیں یہ خود ہی فساد کراتے ہیں اور پھر خود ہی اس کی اصلاح کی کوشش شروع کردیتے ہیں لوگ آپس میں الجھ نہ رہے ہوں تو یہ بےچین ہوجاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی اسکیم ایسی کرتے ہیں جس سے لوگ آپس میں الجھ جائیں کیونکہ اسی میں ان کی ساری بڑائی کا راز ہے ۔ خیال رہے کہ یہ لوگ اس دھرتی پر خدائی قانون نافذ ہوتا کبھی برداشت نہیں کرسکتے یہ زیادہ سے زیادہ مذہب کا نام لیتے ہیں اور جس قدر نام لیتے ہیں حقیقت میں یہ اتنے ہی مذہب سے بیزار ہوتے ہیں ان کی زبانیں کچھ کہہ رہی ہوتی ہیں اور ہاتھ کچھ کر رہے ہوتے ہیں ان کے دلوں کے اندر کچھ ہوتا ہے اور ان کی زبانیں کچھ اور کہتی ہیں ۔ اس وقت بھی آپ کسی ایک مذہبی یا سیاسی لیڈر کا دیانتداری کے ساتھ تجزیہ کرکے دیکھیں یہ ساری صفات ان میں آج بھی بدرجہ اتم موجود ہوں گی ، ہم نے اپنی اس تفسیر میں اکثر جگہ پر ان لوگوں کو ” دوہری پوزیشن کے لوگ “ کے نام سے موسوم کیا ہے اس لئے جہاں بھی اس لفظ کا استعمال دیکھیں اس سے ہماری مراد انہی دونوں طبقہ کے لوگوں سے ہے ، صالح (علیہ السلام) نے نہایت وضاحت سے ارشاد فرمایا کہ ” میری قوم کے لوگوں ان بیباک لوگوں کا کہنا نہ مانو “ کیونکہ یہ مسرفین ہیں یعنی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ۔ اسراف کرنے والے خواہ وہ مال میں یا کسی اور چیز میں یہ لوگ دراصل پابندی سے گھبراتے ہیں اور کسی حال میں بھی یہ پابند نہیں ہونا چاہتے اس لئے ہم نے انکو بےلگام کے لفظ سے یاد کیا ہے اور انہی لوگوں کو ہماری زبان میں ” چھوٹ “ بھی کہا جاتا ہے ۔
Top