Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 16
فَاْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
فَاْتِيَا : پس تم دونوں جاؤ فِرْعَوْنَ : فرعون فَقُوْلَآ : تو اسے کہو اِنَّا رَسُوْلُ : بیشک ہم رسول رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کا رب
پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ ہم پروردگار عالم کے رسول ہیں
تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور اس کو کہو کہ ہم رب العلمین کے بھیجے ہوئے ہیں : 16۔ اے موسیٰ اور ہارون تم دونوں بھائی فرعون کے پاس جاؤ اور بلاتردد اس سے کہہ دو کہ اے فرعون ! رب کائنات نے ہمیں تمہاری طرف اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے ۔ اندازہ کیجئے الہی پروگراموں کا کہ ایک پروگرام تشکیل دیا جاتا ہے اور وہ کہاں سے کہاں ہوتا ہوا کہاں جا پہنچتا ہے وہیں جہاں سے اس کو شروع کیا گیا تھا ۔ آپ سورة قصص میں پڑھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قوم بنی اسرائیل کو جو ایک مدت سے فرعون کے ظلم وستم کا شکار چلی آرہی تھی گویا کہ وہ مر چکی تھی جب اس کو زندہ کرنے کا ارادہ کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور فرعون کی ساری دفاعی سکیموں کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی گود میں پرورش کرا دیا ‘ ایسا کیوں ہوا ؟ اس کی تفصیل ہم سورة طہ میں بیان کر آئے ہیں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو مصر سے نکالنے کی کیا صورت پیدا کی اور واپس لانے کا کیا طریقہ کیا اس میں کتنی مدت خرچ ہوئی اس معاملہ میں کس طرح (کن) ہوا اور کیونکر (فیکون) اور اب بات اس مقصد کے قریب آلگی جس مقصد کے لئے یہ سارا سوانگ رچایا گیا تھا ، موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) فرعون کے دربار میں پہنچے اپنا تعارف کرایا اور یہ وہ تعارف تھا جس تعارف کو وہ اس سے پہلے کبھی نہیں جانتا تھا باوجود اس کے کہ وہ ہارون اور موسیٰ دونوں بھائیوں سے اچھی طرح واقف تھا لیکن آج وہ پہلے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نہیں ہیں بلکہ آج ان کا تعارف اللہ تعالیٰ کے فرستگان کی صورت میں کرایا جا رہا ہے ۔ اس پر فرعون پر کیا گزری ہوگی یہ وہی بتائے گا اللہ تعالیٰ کے دونوں رسولوں نے اپنا تعارف بےدھڑک کرا دیا کیونکہ ابھی ابھی ان کی دھڑکن درست کی گئی تھی اور دونوں نے اپنے آنے کی وجہ بھی بیک زبان کہہ دی کہ ہم کیوں آئے ہیں ۔
Top