Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 163
فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ
فَاتَّقُوا : پس تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوْنِ : اور تم میری اطاعت کرو
پس اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو
سیدنا لوط (علیہ السلام) نے کہا کہ تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبرداری کرو : 163۔ جیسا کہ پہلے بھی دعوی کیا جا چکا ہے کہ ہر ایک نبی ورسول کی مخالفت میں قوم کے سربرآوردہ لوگ پیش پیش رہے ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ یہی وہ طبقہ ہے جو اپنے آپ کو کسی ضابطہ کا پابند تصور نہیں کرتا اور اتنا چھوٹ ہوتا ہے کہ جو اس کے منہ میں آئے وہ کہہ دیتا ہے ۔ پھر یہ لوگ اپنے مزاج کے خلاف کسی کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے دلیل کو یہ لوگ کبھی نہیں سنتے ‘ دھونس اور دھاندلی ان کا کام ہوتا ہے اور پھر ان کی ہاں میں ہاں ملانے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی ‘ ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہی سند ہوتی ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی بات میں کوئی صداقت نہیں ہے ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات ہی سند ہوتی ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی بات میں کوئی صداقت نہیں ہے ان کے منہ پر کوئی شخص کہنے کی جرات نہیں رکھتا یہ لوگ جب نبی ورسول کے مخالف کھڑے ہوجاتے ہیں تو ہر نبی ورسول ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ہی کی ہدایت کرتا ہے اور عوام کو یہی کہتا ہے کہ اللہ سے ڈرو اور ان لوگوں کی پیروی کرنے کی بجائے تم اللہ کے رسول ہی پیروی کرو اور چونکہ رسول وہ خود ہی ہوتا ہے اس لئے اس کو یہ کہنا ہوتا ہے کہ لوگو ! میری پیروی کرو اور ان لوگوں کی فرمانبرداری کرکے اپنے آپ کو دوزخ کا ایندھن مت بناؤ اور یہی وہ بات ہے جو ہر آن برسرآوردہ لوگوں کو برداشت نہیں ہوتی اور ایسی بات ان کو کیونکر برداشت ہوسکتی ہے جبکہ اکثریت ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہو اور ایک آدمی ان کے مقابلہ میں کھڑا ہوجائے اور ان کی باتوں کو ماننے سے وہ لوگوں کو بآواز بلند منع کرنا شروع کردے تو ظاہر ہے کہ اس طرح وہ خود ہی اپنی موت کو دعوت دے گا اور جیسا کہ اوپر سے آپ پڑھتے چلے آ رہے ہیں یہی کچھ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور رسل عظام کے ساتھ ہوا اور قوم کے ان وڈیروں نے مخالفت انبیاء ورسل میں ایک سے زیادہ طریقے استعمال کئے اور اللہ کے ان بندوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا اور انجام کار اسی ظلم کی پاداش میں ان کو اس دھرتی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا ۔
Top