Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 166
وَ تَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ
وَتَذَرُوْنَ : اور تم چھوڑتے ہو مَا خَلَقَ : جو اس نے پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے رَبُّكُمْ : تمہارا رب مِّنْ : سے اَزْوَاجِكُمْ : تمہاری بیویاں بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : لوگ عٰدُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
اور اپنی بیویوں کو جو اللہ نے تمہارے لیے بنائی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو ، حقیقت یہ ہے کہ تم حد ہی سے نکل جانے والے ہو
جو کچھ تمہاری بیویوں میں اللہ نے تمہارے لئے پیدا کیا اس کی تلاش نہیں کرتے ؟ 166۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) نے قوم کے اندھے پن پر اس کی سرزنش شروع کردی اور فرمایا کہ تم عجیب قوم ہو کہ دنیا کی کوئی برائی ایسی نہیں جو تم میں موجود نہیں اور دنیا کی کوئی خوبی ایسی نہیں جو تم میں پائی جاتی ہو ۔ تم کیسے لوگ کہ دنیا کی سرکش ‘ متمرد اور بداخلاق وبداطوار قوم کے دوسرے عیوب و فواحش کے علاوہ تم ایک ایسے خبیث عمل میں مبتلا ہو یعنی یہ کہ تم اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی بجائے مرد لڑکوں سے اختلاط رکھتے ہو دنیا کی قوموں میں اس عمل کا اس وقت تک کہیں رواج نہیں تم ہی ایسی بدبخت اور بدتمیز قوم ہو کہ عورتوں کو چھوڑ کر اس ناپاک عمل کے درپے ہو حالانکہ اس طرح بیج کو خواہ مخواہ ضائع کرکے اپنا بھی ستیاناس کرتے ہو اور عورتوں میں جو تم کو اس کے عوض مل سکتا ہے اس کی تلاش بھی تم نے چھوڑ دی ہے جس کے نقصان سے بھی تم دو چار ہوتے ہو اس طرح تم حد سے بہت تجاوز کرچکے ہو ۔ یہ عمل چونکہ نہایت ہی برا تھا اور پھر اس میں ساری قوم مبتلا تھی اس لئے اس پر اس کا نام لے کر سرزنش کی گئی ورنہ سچی بات ہے کہ اس قوم کے بگاڑ کی کوئی انتہا ہی نہ تھی ۔ تحریر ہے کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ سیدنا لوط (علیہ السلام) کی عافیت وخیر معلوم کرنے کے لئے اپنے خانہ زاد الیعزر دمشقی کو سدوم روانہ کیا وہ جب بستی کے قریب پہنچا تو اجنبی سمجھ کر ایک سدومی نے اس کے سر پر پتھر کھینچ مارا اور اس طرح الیعزر کے سر سے خون جاری ہوگیا تب آگے بڑھ کر وہ سدومی کہنے لگا کہ میرے پتھر کی وجہ سے یہ تیرا سر سرخ ہوا ہے لہذا مجھے اس کا معاوضہ ادا کر دے اور لیت ولعل میں اس مطالبہ کے لئے کھنیچتا ہوا اس کو سدوم کی عدالت میں لے گیا ۔ حاکم سدوم نے مدعی کا بیان سن کر کہا کہ بلاشبہ الیعزر کو سدومی کے پتھر مارنے کی اجرت دینی چاہئے الیعزر یہ سن کر غصہ میں آگیا اور ایک پتھر اٹھا کر حاکم کے سر پر دے مارا اور کہنے لگا کہ میرے پتھر مارنے کی جو اجرت ہے وہ تو اس سدومی کو دے دے اور یہ کہتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا ۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے دوسرے واقعات سے یہ روشنی ضرور پڑتی ہے کہ اہل سدوم اس قدر ظلم ‘ فحش ‘ بےحیائی اور فسق وفجور میں مبتلا تھے کہ اس زمانہ کی قوموں میں اس کی جانب اس قسم کے واقعات عام طور پر منسوب کئے جاتے ہیں ، لیکن افسوس کہ ہمارے مفسرین نے اس سرزنش کو جو سیدنا لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو کی اور جس طرح ان کو شرم وعار دلائی بڑی عجیب تصویر پیش کی اور آپ کے لفظ (آیت) ” ھؤلآء بنتی ھن اطھرلکم “۔ کی تفسیر کو اس قدر لچر بنا دیا کہ آدمی اس کو سن کر بجائے اس کے کہ وہ ان سدومیوں کو برا بھلا کہے ان مفسرین کا ماتم شروع کردیتا ہے اور اس کو ایسا کرنا ہی چاہئے کہ ان کا معاملہ تو گزر گیا جیسا گزر گیا لیکن اس تفسیر نے تو ہماری قدروں کا بیڑا غرق کردیا اور ہم کو دوسری قوموں میں منہ دکھانے کا نہ چھوڑا اور ایک اللہ کے نبی پر وہ اتہام باندھا جو بڑے بڑے متہم کرنے والے بھی نہ باندھ سکے اور یہودیوں کی تاریخ سے اٹھا کر ساری کالک سیدنا لوط (علیہ السلام) پر مل دی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون “۔
Top