Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 187
فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَؕ
فَاَسْقِطْ : سو تو گرا عَلَيْنَا : ہم پر كِسَفًا : ایک ٹکڑا مِّنَ : سے۔ کا السَّمَآءِ : آسمان اِنْ كُنْتَ : اگر تو ہے مِنَ : سے الصّٰدِقِيْنَ : سچے
اگر تم (اے نوح اپنے دعویٰ رسالت میں) سچے ہو تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دو
قوم نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دو : 187۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) قوم کو سمجھاتے وقت اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تم پر اسی طرح کا کوئی عذاب آئے گا جس طرح کے عذاب عاد ‘ ثمود ‘ اور قوم لوط پر آئے اب اس انذار کے جواب میں قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے مطالبہ شروع کردیا کہ اگر تم سچے رسول ہو تو ہم نے جب تمہاری بات نہیں مانی تو چاہئے کہ ہم پر آسمان ٹوٹ پڑے اگر اس وقت تک تم نے اس کو روک رکھا ہے تو جاؤ ہم پر آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا دو گویا قوم اس قدر حد سے تجاوز کرگئی کہ اب ان کی ہلاکت لازم ٹھہری اور آخر وہی ہوا جو قانون الہی کا ابدی و سرمدی فیصلہ ہے یعنی حجت وبرہان کی روشنی آنے کے بعد بھی جب باطل ہی پر اصرار ہو اور اس کی صداقت کا مذاق اڑایا جائے اور اس کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالی جائیں اور عذاب لے آنے کے مطالبات زور پکڑ جائیں تو عذاب الہی اس مجرمانہ زندگی کا خاتمہ کردیتا ہے اور آنے والی قوموں کے لئے اس کو عبرت اور موعظت بنا دیا جاتا ہے یہاں اب یہی کچھ ہونے والا ہے ۔
Top