Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور بلاشبہ وہ (قرن کریم) تمام جہانوں کے پروردگار کا اتارا ہوا ہے
بلاشبہ قرآن کریم کا نزول رب العالمین کی طرف سے ہے : 192۔ غور کرو کہ (انہ) کا مرجع اس سے کتنے فاصلے پر چلا گیا اور جب بات واپس پھیری تو اس کو ضمیر ہی کے ساتھ دوبارہ چلا دیا کہ اس میں کسی طرح کا کوئی ابہام موجود نہ تھا یہ بات اس لئے عرض کی جا رہی ہے کہ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر ایسا ہوا ہے اور لوگوں نے اس سے بڑی بحثیں اٹھائی ہیں اور خواہ مخواہ ان بحثوں کو طول دیا گیا ہے حالانکہ سیاق وسباق مضمون کی وضاحت کردیتا ہے کہ میری مراد کیا ہے ، فرمایا یہ قرآن کریم مخالفین اور منکرین کو متنبہ کر رہا ہے کہ غور کرلو کہ میرے اتارے جانے کا اصل مقصد کیا ہے ؟ کیا یہ ہے کہ اس کو سمجھ کر اس سے مطابق اپنی زندگیاں گزاری جائیں یا اس لئے کہ اس کو مرنے والوں کی بخشش کے لئے بطور وسیلہ پڑھا جائے ؟ اور بہتر ہے کہ یہ فیصلہ خود اس قرآن کریم ہی سے کروایا جائے یا اس نبی اعظم وآخر ﷺ سے جن کے سینہ اقدس پر اس کا نزول ہوا اور ظاہر ہے کہ قرآن کریم خود اس کا فیصلہ فرما دے گا کیونکہ وہ کسی ایک گروہ کے رب کی طرف سے نہیں نازل ہوا بلکہ رب العالمین کی طرف سے اس کا نزول ہوا ہے ۔
Top