Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 194
عَلٰى قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ
عَلٰي : پر قَلْبِكَ : تمہارا دل لِتَكُوْنَ : تاکہ تم ہو مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ : ڈر سنانے والوں میں سے
آپ [ ﷺ کے دل پر اتارا گیا ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں ہو جائیں
اس کا نزول محمد رسول اللہ ﷺ کے دل پر ہوا ہے اور آپ کی زبان ہی نے اس کو ادا کیا : 194۔ اس حقیقت کو الفاظ میں پوری وضاحت کے ساتھ نہیں سمجھایا جاسکتا بلکہ یہ خود سمجھ لینے کی چیز ہے یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے اس کو مسلسل دوسروں ہی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے وہ ہمیشہ راستہ سے بھٹک گئے ہیں اس کی تفہیم بہت ضروری ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے اور کیا سمجھا جا رہا ہے چونکہ اس کا کوئی مضمون بھی ایسا نہیں جو فقط ایک ہی بار اتارا گیا ہو بلکہ ہر ایک مضمون ایک سے زیادہ بار نازل کیا گیا ہے اور وہ خود اپنے مفہوم کی وضاحت کرتا ہے اس لئے جب تک اس کو بار بار اس پر نہ لوٹایا جائے اس وقت تک بات صاف نہیں ہوتی اس کا دعوی یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور میری خوبی یہ ہے جو دوسروں کلاموں سے مجھے الگ تھلگ کردیتی ہے کہ مجھ میں تضاد بالکل نہیں گویا میرے نزول کا وقت تو 24 سال تک تقریبا ہوتا رہا اور ان سالوں میں مختلف حالات سامنے آتے رہے ہیں جو بالکل ایک دوسرے کے مخالف بھی تھے لیکن میرا کمال یہ ہے کہ میرے بیان میں کوئی شخص تضاد ثابت نہیں کرسکتا اگر کوئی تضاد پایا گیا تو اس سے سمجھ لیا جائے گا کہ میری تفہیم کرانے والے نے صحیح نہیں کرائی خواہ اس کی اپنی تفہیم نہ ہوئی تھی اور خواہ اس نے کسی خاص مقصد کے تحت مجھے بیان کیا تھا اور اس طرح اپنا مطلب نکال لیا تھا یہی وہ آخری کسوٹی ہے جس پر رکھ کر قرآن کریم کو پرکھا جاسکتا ہے لیکن افسوس کہ اس کسوٹی کو لوگوں نے ماننے اور تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے اور کرتے ہی چلے جا رہے ہیں اور یہی اس کا باعث ہے کہ علمائے امت نے اس کی مختلف تعبیریں کردی ہیں اور ہر تعبیر کو قرآن قرار دیا ہے حالانکہ وہ تعبیر انکی اپنی تھی ، کسوٹی اس کو کہا جاتا ہے جو سب کے کام آئے فقط اس سے کام لینے کے لئے کسوٹی کی شناخت صحیح ہونی چاہئے اور بات جہاں سے چلی تھی وہی پہنچ گئی کہ اس کا اصل میعار انسان کا وہی دل ہے لہذا کوئی سمجھنا چاہے گا تو وہ خود اس کی راہنمائی کرے گا اور اگر نہیں سمجھنا چاہے گا تو اس کو بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے گا تاکہ وہ جس وادی میں چاہے بھٹکتا پھرے اور جہاں تک اس کو اختیار دیا گیا ہے اس کو بالکل آزاد کردیا جائے کیونکہ ایک کی جگہ ہمارا کوئی دوسرا پکڑا نہیں جائے گا ۔ غور کرو کہ یہ مفہوم خود قرآن کریم نے کسی طرح وضاحت سے متعین کردیا ہے کہ اس کا اصل مقصد تبشیر وتنذیر ہے اور صرف واقعہ نگاری نہیں ہے جس نے بھی اس کو واقعہ نگاری کے طور پر استعمال کیا خواہ وہ کون ہو اور کہاں ہوں اس نے اس کا مقصد بالکل نہیں سمجھا بلکہ وہ ابھی تک قرآن کریم کے قریب بھی نہیں پھٹکا خواہ عبارت قرآنی کا حافظ وقاری ہی کیوں نہ ہو اور خواہ اس نے ایک ایک لفظ کی کتنی ہی وضاحت کردی ہو ۔ کیونکہ یہ سب کچھ واقعہ نگاری ہی کے ضمن میں آتا ہے نہ کہ تبشیر وتنذیر کے ضمن میں یہی وجہ ہے کہ اس کی تفسیر کرنے والے تفسیریں کرتے رہتے ہیں لیکن خود ان کے لئے اگر وہ تبشیر وتنذیر کا کام نہیں کر رہا تو بلاشبہ سب اضاعت وقت ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ ہم درد دل کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اے احکم الحاکمین اس قرآن کریم کو ہمارے لئے ہمارے ہر فرد کیلئے وہ امیر ہے یا غریب ‘ وہ حکمران ہے یا رعایا ‘ وہ عالم ہے یا ناخواندہ سب کے لئے اس کو تبشیر وتنذیر بنا دے اور ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرما۔
Top