Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 199
فَقَرَاَهٗ عَلَیْهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ مُؤْمِنِیْنَؕ
فَقَرَاَهٗ : پھر وہ پڑھتا اسے عَلَيْهِمْ : ان کے سامنے مَّا : نہ كَانُوْ : وہ ہوتے بِهٖ : اس پر مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
اور وہ اس کو پڑھ کر ان کو سناتا پھر بھی یہ اس پر ایمان نہ لاتے
وہ ان کے سامنے قرآن کریم کو پڑھتا تو بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاسکتے تھے : 199۔ قرآن کریم کے الفاظ ومضامین اور اس کی روحانی کشش بلاشبہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے یا یوں کہو کہ معجزانہ کلام ہے لیکن اگر اس کو کسی عجمی پر اتار دیا جاتا تو کا معجزہ ہونے کی مزید وضاحت ہوجاتی کہ اس کو ایک ایسا شخص بول اور پڑھ رہا ہے جس کی اپنی زبان بھی عربی نہیں لیکن کیا نہ ماننے والے اس وقت مان لیتے ؟ فرمایا ان ظالموں کو اس درجہ عناد اور ضد ہے کہ یہ اس صورت میں بھی ایمان لانے کے لئے تیار نہ ہوتے بلاشبہ نہ ماننے اور نہ تسلیم کرنے والوں کے لئے کوئی دلیل بھی دلیل نہیں ہوتی کیونکہ ضد وعناد کا علاج کبھی دلیل نہیں ہو سکتا اور لاتوں کے بھوت کبھی باتوں سے نہیں مانتے ، افسوس کہ بات تو ان لوگوں کی نقل کی جاری ہے جو ناخواندہ اور ناسمجھ تھے لیکن آج بدقسمتی سے یہ ان لوگوں پر فٹ ہوتی دکھائی دیتی ہے جو علمائے کرام اور مذہبی وسیاسی پیشوایان قوم کے زمرہ سے اپنی شناخت رکھتے ہیں کیا اس وقت کی جہالت اور ہمارے وقت کا علم دونوں کی میزان برابر ہے ؟ اچھا اگر ہم اس قرآن کریم کو کسی عجمی پر اس کی زبان عجمی ہی میں اتار دیتے اور وہ اپنی زبان میں قرآن کریم پڑھ کر سناتا تو پھر یہ ایمان لے آتے ؟ ہرگز نہیں اس کے متعلق بھی پوری وضاحت خود قرآن کریم ہی نے کردی ہے چناچہ ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” ولو جعلنہ قرانا اعجمیا لقالوا لولا فصلت ایتہ اعجمی وعربی) (فصلت 41 : 34) ” اگر ہم اس کو عجمی قرآن بنا کر بھیجتے تو یہ لوگ کہتے کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں ؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عربی ۔ “ سچی بات ہے کہ پانی بلونے سے کبھی مکھن نہیں آتا صرف وقت ضائع ہوتا ہے اور اس طرح کے بگڑے ہوؤں کا علاج سوائے ڈنڈے کے اور کچھ نہیں ہوتا خواہ وہ انسانوں کی طرف سے برسے جسے سب لوگ دیکھیں اور خواہ رب کریم کی طرف سے برسے جس کی لاٹھی سے کبھی آواز نہیں آتی اور اس کے عذاب کا کوڑا بڑوں بڑوں پر برس جاتا ہے اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ۔
Top