Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 212
اِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَؕ
اِنَّهُمْ : بیشک وہ عَنِ : سے السَّمْعِ : سننا لَمَعْزُوْلُوْنَ : دور کردئیے گئے ہیں
ان کو تو سننے کے مقام سے بہت دور کردیا گیا ہے
شیطانوں کو تو سننے کے مقام سے بہت دور کردیا گیا ہے : 212۔ طبعی اور فطری چیزوں کا انکار کب ممکن ہے ؟ ذرا غور کرو کہ اگر کسی آگ سے جلانے کی صفت الگ کرلی جائے تو آخر آگ ہی کیوں ہوگی ؟ اگر ایسا ممکن ہے کہ ایک ناپاک چیز سے پاکیزگی نکلنا شروع ہوجائے یا ایک پاک چیز سے ناپاکی نکلنا شروع ہوجائے تو آکر اس ناپاک کو ناپاک اور ایسی پاک چیز کو پاک سمجھنے یا بیان کرنے کے لئے دلیل کیا ہوگی اور کیوں نہ کہا جائے گا کہ جس چیز کو ہم نے ناپاک سمجھا وہ ناپاک نہیں تھی اور اس طرح جس کو ہم نے پاک سمجھا وہ پاک ہی نہ تھی پھر تم نے کیوں نہ سمجھا کہ شیطان تو ایسی طبعی پاکیزگی سے طبعا دور کردیئے گئے ہیں تو پھر اس کے اتارنے والے شیطان کیونکر ہوئے دراصل یہ ساری خرابی ان علماء کے گروہ اور مذہبی پیشواؤں کی پھیلائی ہوئی ہے جنہوں نے اس غلط بات کو معروف کردیا ہے کہ دین میں عقل کو دخل نہیں حالانکہ دین طبعی انہی لوگوں کے لئے ہے جو عقل وفکر رکھتے ہیں اس غلط نظریہ کا یہ نقصان ہوا کہ آج جو کچھ کوئی دین کے نام سے کہہ دیتا ہے وہ مطمئن ہے کہ اس کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا کیونکہ دین جب عقل وفکر کی چیز ہی نہیں تو کہنے والا چاہے جس کا نام دین رکھ دے فقط اس کے نام کے ساتھ علامہ کا لفظ ہونا ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہی کچھ ہو رہا ہے کہ جن باتوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ان کو دین کے نام پر معروف کردیا جاتا ہے گویا دین نام ہے ایک مذہبی اجارہ دار کی باتوں کا کہ وہ جو چاہے کہہ دے اور اس کا نام دین رکھ دے اس کا نہ کوئی رد کرسکتا ہے نہ برا کہہ سکتا ہے اللہ میاں کہتا رہے کہ ہم نے شیطان کو قرآن کریم کے سننے کے مقام سے دور کردیا ہے لیکن بات تو تب ہی ہے کہ ہمارے مذہبی پیشوا بھی مانیں ، بات تو یہ ان لوگوں کی بیان کی جا رہی ہے جو اس وقت کے مذہبی پیشوا کہہ رہے تھے لیکن اگر غور کرو گے تو ہماری حالت بھی تم کو یہی نظر آئے گی اگر کوئی فرق نظر آئے گا تو شاید ناموں ہی کا آئے گا اگرچہ نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدل سکتی ۔
Top