Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 214
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ
وَاَنْذِرْ : اور تم ڈراؤ عَشِيْرَتَكَ : اپنے رشتہ دار الْاَقْرَبِيْنَ : قریب ترین
اور (اے پیغمبر اسلام ! ) اپنے قریبی رشتہ داروں کو نصیحت کیجئے
اے پیغمبر اسلام ! ﷺ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی ڈرائیں کہ وہ شرک سے باز آئیں : 214۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے اہل خاندان کو بھی ہوشیار کردیں کیونکہ وہ آپ ﷺ کے عزیز و اقارب ہیں اس لئے وہ آپ ﷺ کی خیر خواہی کے زیادہ مستحق ہیں ، یہ حکم ملا تو نبی اعظم وآخر ﷺ نے کوہ صفا پر چڑھ کر پکارا یا معشر القریش اور پھر قریش کے سارے قبائل کے الگ الگ نام بھی آپ ﷺ نے لئے کہ یا بنی فہر ‘ یا بنی عدی ‘ یا بنی ہاشم وغیرہ گویا جتنے قریش کے قبائل تھے ان سب کا نام آپ ﷺ نے لیا یہاں تک کہ سب کے سب جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے ان کو مخاطب کرکے ایک سوال کیا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر آ رہا ہے تو تم کو یقین آئے گا ؟ سب نے کہا کیوں نہیں ‘ ضرور یقین آئے گا کیونکہ آپ ﷺ کو ہمیشہ ہم نے سچ بولتے دیکھا ہے آپ نے فرمایا تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر عذاب شدید نازل ہوگا ۔ یہ سن کر سب لوگ جن میں آپ ﷺ کا حقیقی چچا ابو لہب بھی شامل تھا ان لوگوں نے آپ ﷺ کی بات کو سنا تو برہم ہو کر واپس چلے گئے ، (صحیح بخاری ج 2 ص 703) نبی اعظم وآخر ﷺ نے اسی طرح قریش مکہ کو اکٹھا کرنے کے لئے کئی بار ان کی دعوت کی اور انکو گھر بلایا ‘ انکو کھانا پیش کیا اور انکے کانوں تک اللہ کا دین پہنچایا تاکہ آپ ﷺ کا فرض منصبی پورا ہو اگرچہ بہت ہی کم تھے جنہوں نے مانا اور تسلیم کیا زیادہ تر لوگ مخالفت میں کھڑے ہوگئے اور آخر تک مخالفت پر ڈٹے رہے ۔ زیر نظر آیت میں ہم کو یہ سبق دیا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو دین کی سمجھ عطا فرما دے اس کو چاہئے کہ وہ اپنے عزیزواقارب میں پھیلائے تاکہ ہو لوگ بھی مکمل طور پر اس سے مستفید ہو سکیں لیکن جس طرح اس وقت نبی اعظم وآخر ﷺ کے خاندان نے بہت کم فائدہ اٹھایا یہی طریقہ آج بھی جاری وساری ہے جو رسوائی اپنوں میں ہوتی ہے اور دوسروں میں ممکن ہی نہیں اور جتنی مخالفت اپنے قریبی کرتے ہیں ناواقف اور دور کے لوگ اتنی مخالفت نہیں کرتے اور نہ ہی کرسکتے ہیں ۔
Top