Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 226
وَ اَنَّهُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَۙ
وَاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں مَا : جو لَا يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے نہیں
اور وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں
شاعر لوگ وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جو کرتے نہیں : 226۔ قرآن کریم نے کتنی پتے کی بات بتائی ہے جو اس وقت بھی اور آج بھی بلاشبہ اور لاریب صحیح اور سچ ہے اسی موقع پر بولتے ہیں کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے یہ تیسری کسوٹی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے بلاشبہ شاعر لوگ اپنے شعروں میں وہ کچھ کہہ دیتے ہیں جو وہ خود نہیں کرتے اور وہ کچھ کہہ دیتے ہیں جو کبھی بھی کر نہیں سکتے اس کی مثالیں کثرت سے آج بھی موجود ہیں وہ اکثر اوقات مکارم اخلاق کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملا دیں گے لیکن ان پر عمل کی توفیق ان کو کبھی نہیں ہوگی ۔ شعروں سے مجھے نہ لگاؤ ہے اور نہ پڑھنے کی عادت یہی وجہ ہے کہ جو اشعار میں نے کہیں تحریر بھی کئے ان کو اکثر صحیح تحریر بھی نہ کرسکا اس جگہ بھی بطور مثال کچھ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن شعروں کو آپ خود درست کرلیں اگر مجھ سے کوئی لغزش ہوگئی ہو۔ علامہ اقبال (رح) رقم طراز ہیں کہ : علامہ (رح) نے کس وضاحت سے بیان کردیا کہ نبوت و شاعری میں زمین و آسمان کا فرق ہے بلکہ دونوں آپس میں متضاد ہیں اس لئے جو نبی ہے وہ شاعر نہیں اور جو شاعر ہے وہ کبھی نبی نہیں ہو سکتا کیونکہ نبوت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اندر باہر سے ایک ہو اور شاعر کم ہی اندر اور باہر سے ایک ہوتا ہے مثلا علامہ (رح) ایک جگہ موجودہ جمہوریت کے متعلق رقم طراز ہیں کہ : اس راز کو ایک مرد فرنگی نے کیا فاش ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے : جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے : کیا آپ بتائیں گے کہ اس میں علامہ مرحوم ومغفور (رح) نے جمہوریت کی مدح کی ہے یا ذم ؟ اگر مدح کی ہے تو کیسے ؟ اور اگر ذم بیان کی گئی ہے تو مذمت شدہ چیز کو کیوں اختیار کرلیا ؟ کیا کسی ایک نبی ورسول کا آپ نام لے سکتے ہیں جس نے مذمت کی جانے والی چیز کو اختیار کیا ہو اور مدح کرکے اس کو چھوڑ دیا ہو ؟ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ نہیں اور ہرگز نہیں ۔ مولانا حالی ایک بہترین شاعر ہیں لیکن ایک جگہ قوم کو مخاطب کرکے ارشاد فرماتے ہیں کہ ع چلو تم ادھر کو جدھر کی ہوا ہو۔ مولانا نے یہ فرما کر قوم کو کیا سبق دیا ؟ ہر صاحب عقل وفکر کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک شاعر ہی کا کلام ہو سکتا ہے لیکن کوئی نبی ورسول قوم کو اس طرح کی تلقین نہیں کرسکتا ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ کے احسانات کا ذکر کرتے ایک شاعر رقم طراز ہیں اور جو کچھ انہوں نے کہا ہے وہ سو فی صدی سچ کہا ہے لیکن جہاں وہ کھڑے ہو کر کہہ رہے ہیں وہ مقام ہی پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ ایک شاعر کا کلام ہے جس سے اس کی اپنی زندگی کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ سراسر اس کے خلاف ہے جو اس نے لکھا ہے بہرحال دوسروں لوگوں کو خوش کرنے کے لئے لکھا ہے بہرحال وہ لکھتا ہے کہ : چھڑا کے بت کی پرستش سکھائی تھی وحدت میرے خیال کی ترویج عام ہوجائے : سیاسیات سے مذہب ملا یا تو نے کہ دین وہ دنیا کا سب انتظام ہوجائے : رفاہ عام ہی تیرا تھا جبکہ نصب العین لقب نہ کیوں تیرا خیرالانام ہوجائے : وفا جہاں میں وہ عالی مقام ہوتا ہے عطا جسے مئے عرفان ہو جاے ۔ (ازلالہ دھرم پال گپتا وفاعہ مدیر روزنامہ تیج دہلی) اسی طرح ایک اور شاعر نے اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ﷺ کی زندگی کی جو دنیا کی ضرورت تھی اس کا بہترین نقشہ اپنے چند شعروں میں قلمبند کیا ہے وہ رقم طراز ہے کہ : دنیا کو تم نے آ کر پرنور کردیا ہے اور ظلمتوں کو یکسر کافور کردیا ہے : پیام حق سنا کر مسرور کردیا ہے وحدت کی مئے پلا کر مخمور کردیا ہے : اک بار تو دیار یثرب کو دیکھ لیتا پابندئی جہاں نے مجبور کردیا ہے : سندر سے کیا رقم ہو وہ شان ہے تمہاری جس نے گداگروں کو فغور کردیا ہے : (از شیام سندر ‘ السندر ایڈیٹر پارس لاہور) مختصر یہ کہ اکثر اوقات شاعر کو عمل کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا وہ مضامین شجاعت و مردانگی کا باندھے بدچلن اور سیاہ کار ہوگا ۔ عام دستور ہر ملک کے شاعروں کا یہی ہے اور اس طرح وہ قومی زندگی کی عملی قوت کو اور کمزور کرتے رہتے ہیں ، تاریخ میں ہے کہ دور اموی کے مشہور شعر فرزوق نے جب اپنا وہ شعر جس میں اپنی حرام کاری کو اس نے مزے لے لے کر بیان کیا خلیفہ وقت سلیمان بن عبدالملک کو سنایا تو خلیفہ نے برجستہ کہا کہ اس اقبال جرم کے بعد تم پر حد شرعی واجب آگئی تو شاعر نے یہی آیت قرانی اپنی صفائی میں پڑھی جس کی یہاں تفسیر کی جا رہی ہے اور اپنی جان کی امان چاہی اور اس طرح گویا ظاہر کردیا کہ ہم شاعر لوگ ہیں ہمارے کلام سے ہمارے عمل کا بھلا تعلق کیا ؟
Top