Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 65
وَ اَنْجَیْنَا مُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗۤ اَجْمَعِیْنَۚ
وَاَنْجَيْنَا : اور ہم نے بچالیا مُوْسٰي : موسیٰ وَمَنْ : اور جو مَّعَهٗٓ : اس کے ساتھ اَجْمَعِيْنَ : سب
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے سب ساتھیوں کو بچا لیا
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور قوم بنی اسرائیل کو بچالیا : 65۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مع آپ کی قوم کے بخیریت پار کردیا لیکن فرعون اور اس کے پورے لشکر کو ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کر کے رکھ دیا اور اس طرح اپنی سنت کو پورا کر دکھایا کہ میرے رسولوں کی مخالفت کرنے والے کبھی میرے عذاب سے بچ نہیں سکتے بلاشبہ فرعون اور اسکے اعوان وانصار نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک عرصہ تک نہایت حد تک تنگ رکھا لیکن جو کچھ انہوں نے کیا صرف زور اور طاقت سے کیا لیکن انجام کا وقت آیا تو کامیابی کس کے حصہ میں آئی ؟ ہر وہ شخص جو اس واقعہ کو پڑے گا کہے گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے حصہ میں ۔ قرآن کریم نے دریائے نیل یا بحر قلزم سے پار ہونے کا جہاں بھی ذکر کیا اس میں دکھانا صرف یہی مقصود تھا کہ انجام کار کامیابی موسیٰ (علیہ السلام) کے حصہ میں آئی کیونکہ یہی مقصود اصل تھا لیکن اس نے پار ہونے کی تفصیلات اس طرح بیان کی کہیں جس طرح تورات میں بیان کیا گیا جو آج بھی تورات میں موجود ہے جیسے خروج باب 12 آیت 21 تا 27 میں بیان ہے تورات کا مقصد بیان یہ دکھانا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس طرح اللہ نے کامیاب کیا اور قرآن کریم کا مقصد بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کے لئے اس طرح اسباب پیدا کردیتا ہے یعنی اس کا جو بندہ بھی اس کی ذات پر انحصار کرکے اس کے بتائے ہوئے وسائل کے مطابق عمل کرتا ہے وہ اس کی مدد فرماتا ہے اس لئے دونوں بیانوں میں جو فرق پڑتا ہے وہ صاحب عقل وفکر کی نگاہ کے سامنے ہے ہمارے مفسرین کی اکثریت وہ طریقہ بیان پسند کرتی ہے جو تورات نے اختیار کیا ہے یا شارحین تورات نے بیان کیا ہے اس لئے وہ قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کرتے وقت ان پورے واقعات کو تورات سے اٹھا کر قرآن کریم کی آیات کی تفسیر میں بیان کردیتے ہیں ہمیں بیان کا وہ طریقہ زیادہ پسند ہے جو قرآن کریم نے خود اختیار کیا ہے اور ایک واقعہ کی دوسری جگہ وضاحت خود قرآن کریم نے کردی ہے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔ قارئین کی اپنی مرضی ہے وہ جو طریقہ پسند کریں اسی طرح بیان کرتے رہیں لیکن ایک دوسرے کو مورد الزام دینے کی ضرورت نہیں ۔ کاش کہ ایک قابل غور بات پر اس طرح غور کرلیا جائے اور قرآن کریم ہی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے ، بہرحال زیر نظر آتی میں مختصر بات یہی بیان فرمائی ہے کہ انجام کار موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے دریا یا بحر قلزم سے بخیریت پار کردیا اور ان میں سے کسی کا بال بھی بیکا نہیں ہوا حالانہ قوم بنی اسرائیل کے چند معدودے آدمیوں کے سوا کسی کو بھی اس طرح دریا عبور کر جانے کی کوئی امید نہ تھی ۔
Top