Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 72
قَالَ هَلْ یَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَۙ
قَالَ : اس نے کہا هَلْ : کیا يَسْمَعُوْنَكُمْ : وہ سنتے ہیں تمہاری اِذْ : جب تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو
ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری (آواز) سنتے ہیں ؟
ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ آخر تم ان کو پکارتے ہو کیا یہ تمہاری پکار سنتے ہیں ؟ 72۔ کسی کو بلانے اور پکارنے کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ یہی کہ وہ میری بات سن کر جو میں کہتا ہوں وہ کرے ، اس ورطہ سے پکارا تو بہرحال اس کو جائے گا جس کے متعلق یقین ہو کہ وہ میری پکار کو سن رہا ہے ۔ وہ مدد کرے گا یا نہیں یہ دوسری بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو ہم کیوں پکارتے ہیں ؟ اس لئے کہ ہمارا ایمان ہے وہ ہر جگہ موجود ہے اور ہر پکارنے والے کی پکار کو وہ سنتا ہے اگرچہ وہ کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتا ‘ نہ پہلے کبھی دکھائی دیتا تھا ‘ نہ اب دیتا ہے اور نہ کبھی اس نظام دنیا میں وہ کسی کو دکھائی دے گا ، لیکن پہلے بھی وہ ہر جگہ موجود تھا ‘ اب بھی ہے اور رہتی دنیا تک جب تک یہ نظام قائم ہے موجود رہے گا پھر ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ ہر ایک کی سنتا ہے اور اگر وہ چاہے تو مدد بھی کرسکتا ہے ، غیر اللہ کو ہم اسی وقت بلا سکتے ہیں یا پکار سکتے ہیں جب وہ ہم کو نظر آئے یا ہمارے علم میں ہو کہ وہ آڑ میں ہے لیکن میری آواز اس تک پہنچ رہی ہے وہ میری آواز سن رہا ہے اور میری مدد کرسکتا ہے جس طرح روزانہ ہم ایک دوسرے کو اپنی ضروریات کے مطابق پکارتے اور بلاتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام آتے ہیں اب ہم اگر کسی کو رسول ونبی اور بزرگ وولی جانتے اور سمجھتے ہوئے اپنی کسی ضرورت کے لئے پکاریں گے یا بلائیں گے خواہ اگر وہ وفات پا چکا ہے تو اس کی قبر پر جا کر یا گھر بیٹھ کر تو ظاہر ہے کہ ہمارا عقیدہ یہ ہوگا کہ یہ نبی ورسول یا ولی و بزرگ دکھائی نہ دینے کے باوجود ہماری بات کو سنتا ہے تو گویا ہم نے اس کو اللہ رب العزت کے ساتھ اس صفت میں شریک سمجھ لیا اور یہی شرک ہے اور پھر ہم یہ عقیدہ بھی رکھیں کہ یہ ولی و بزرگ اگر چاہے تو مدد بھی کرسکتا ہے یا کسی اور مدد کرسکنے یا کر اسکنے کی طاقت کا اس کو مالک بھی سمجھا تو گویا اس صفت میں ہم نے اس کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا دیا کیونکہ شرکت کا لفظ اس بات پر بولا جاتا ہے کہ ایک چیز پر دو یا دو سے زیادہ کی شراکت ہو خواہ برابر یا کمی بیشی کے ساتھ اگرچہ وہ روپے میں ایک پیسہ ہی ہو ۔ اسی باعث سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد اور قوم کے لوگوں سے یہ استفسار کیا کہ وہ لوگ جن کے تم نے یہ بت بنا رکھے ہیں کیا جب تم ان کو پکارتے ہو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہیں ؟
Top