Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 75
قَالَ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ
قَالَ : ابراہیم نے کہا اَفَرَءَيْتُمْ : کیا پس تم نے دیکھا مَّا : کس كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو
فرمایا کیا تم دیکھتے ہو کہ جن کی تم پرستش کرتے ہو
ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا کہا تم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ تم انکی عبادت کیوں کرتے ہو ؟ : 75۔ کاش کہ آج ہمارے مناظرین وجارحین بھی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے انداز مناظرہ اور طریقہ جرح پر غور کرتے تو آج ہمارے مناظروں کی یہ کیفیت نہ ہوتی جو ہو چلی ہے ۔ کسی کے دلائل کا ماننا نہ ماننا اپنی مرضی لیکن انداز بیان کا ایک اپنا مقام ہے مخالف کو مخالف سمجھ کر اس پر پل پڑنا اور ایک دوسرے پر طعنہ زنی اور گالی گلوچ کرنے سے آخر فائدہ ؟ مناظرہ اور جرح کا مطلب تو یہ ہے کہ اپنے مدمقابل کی دانست کے مطابق بات کی جائے اور اس کو مدلل اور مسکت جواب دیا جائے اور خصوصا جس سطح کے لوگوں سے بات کی جارہی ہو اسی سطح کے پیش نظر بات کی جائے اور علمی موشگافیوں سے گریز کیا جائے ، بات مختصر سے مختصر کی جائے لیکن وہ ایسے دلائل سے پر ہو جو دلائل مجلس موجود کی عقل کو اپیل کریں ، فرمایا تم لوگ باقی تمام باتوں میں تو عقل وفکر سے کام لیتے ہو لیکن اس ایک بات کو تم نے عقل وفکر سے آخر کیوں مستثنی قرار دیا ہے ؟ یہ تو اتنا بڑا اہم مسئلہ ہے کہ اس کے متعلق تو خوب عقل وفکر کا استعمال ہونا چاہئے تھا لیکن تم نے اس اہم بات پر آخر عقل وفکر کا چراغ کیوں گل کردیا ہے ؟ وہ کافر مشرک تھے اس لئے انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کا کوئی جواب نہ دیا اگر آج کے ہمارے مسلمان بھائی ہوتے تو جھٹ یہ ارشاد فرما دیتے کہ ” کتنے پاگل ہو تم کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ مذہب میں عقل کو دخل نہیں “ کیونکہ آج ہمارے ہر مکتب فکر کے لوگوں نے اس جملہ کو اس طرح رٹ رکھا ہے کہ گویا وحی الہی کی ابتدا بھی یہی ہے اور انتہا بھی یہی نہ بحث کی ابتداء بھی یہی ہے اور انتہاء بھی یہی لیکن اس کی حیثیت کیا ؟ وہی جو گدھے کے سر پر سینگ کی لیکن ان میں اور ہم میں فرق یہ ہے کہ انہوں نے جو باپ دادا سے سنا اس کے متعلق صاف صاف کہہ دیا کہ ہم نے تو باپ دادا سے یہی سنا ہے لیکن ہم نے جو باپ دادا سے سنا اس کو اس طرح نہیں کہتے کہ ہم نے باپ دادا سے سنا ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ بات تو اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں بیان کی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں ہے لیکن اگر کوئی اتنی بات پوچھ لے کہ صاحب قرآن کریم میں کہاں اور حدیث کی کس کتاب میں ہے ؟ تو جھٹ جواب آئے گا کہ دیکھو یہ تو ہے ہی منکر ‘ دہریہ ہے ‘ نیچری ہے ‘ یہ تو کتاب وسنت کو مانتا ہی نہیں ‘ عقل کی بات کرتا ہے گویا اس کے پیچھے الزامات کی ایک لائن لگ جائے گی حالانکہ قرآن کریم تو بار بار یہ کہتا ہے کہ : ّ (افلا تعقلون) (البقرہ 2 : 44) (لعلکم تعقلون) (البقر 2 : 73) (افلاتعقلون) (البقرہ 2 : 76) (لقوم یعقلون) (البقرہ 2 : 164) تفصیل دیکھنا درکار ہو تو علاوہ ازیں مندرجہ ذیل حوالوں کی طرف مراجعت کریں : سورة البقرہ آیات 170 ‘ 171 ‘ 242 ‘ سورة آل عمران آیت 65 ‘ 118 ‘ سورة المائدہ آیت 58 ‘ 103 ‘ سورة الانعام آیت 32 ‘ 151 ‘ سورة الاعراف آیت 169 ‘ سورة الانفال آیت 22 ‘ سورة یونس آیت 16 ‘ 42 ‘ 100 ‘ سورة ہود آیت 51 ‘ سورة یوسف آیت 2 ‘ 109 ‘ سورة الرعد آیت 4 ‘ سورة النحل آیت 12 ‘ 67 ‘ سورة الانبیاء آیت 10 ‘ 67 ‘ سورة الحج آیت 46 ‘ سورة المومنون آیت 80 ‘ سورة النور آیت 61 ‘ سورة الفرقان آیت 44 ‘ سورة ہذا کی آیت 28 میں بھی اس کا تفصیلی ذکر گزر چکا ہے ان مقامات کی تفسیر کو دیکھ لیں شاید آپ کے ذہن میں کوئی بات اتر جائے اور اس غلط مقولہ کو آپ اپنے ذہن سے نکال سکیں جس نے قوم مسلم کے بڑوں بڑوں کی مت مار دی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سمجھ کی توفیق دے ۔
Top