Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 77
فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَۙ
فَاِنَّهُمْ : تو بیشک وہ عَدُوٌّ لِّيْٓ : میرے دشمن اِلَّا : مگر رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
یہ تو سب میرے دشمن ہیں بجز پروردگار عالمین کے
اگر تم نہیں بولتے تو میرا اعلان برات کان کھول کر سن لو : 77۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو جب والد اور قوم کی طرف سے کوئی واضح جواب نہ ملا تو انہوں نے اپنی بیزاری کا اعلان کردیا یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے بیزاری کا اعلان کس سے کیا ؟ ان لوگوں سے جو غیر اللہ کی پرستش کرتے تھے یعنی والد اور اپنی قوم کے لوگ یا جن کی وہ پرستش کرتے تھے ؟ یہ ان نظریات کی جو آپ کے والد اور آپ کی قوم کے تھے ؟ ہمارے مفسرین کی اکثریت کا بیان یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان بتوں کی بیزاری یا دشمنی کا اعلان کیا ہے کہ میں ان بتوں سے بیزار ہوں یا ان سے دشمنی رکھتا ہوں ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ ایسا کہنے اور سمجھنے سے بات بتوں تک ہی محدود رہے گی آگے صاحب بت کی طرف کسی کا خیال نہیں جائے گا مثلا اگر کسی نے کسی نبی ورسول کا بت بنایا ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ میں تو اس بات کا دشمن ہوں یا یہ بت تو میرا دشمن ہے لیکن اس نبی ورسول کے متعلق تو ایسا نہیں کہا جاسکتا اس طرح ان لوگوں کو مطعون کرنے کا موقعہ بھی ان کو مل جائے گا کہ دیکھو ابراہیم (علیہ السلام) ان بتوں کی دشمنی کا اعلان کر رہے ہیں نہ کہ ان بزرگوں ‘ یتیموں اور رسولوں کا تو بلاشبہ انکو ایسا کہنے پر ہر طرف سے دادا ملے گی اور اس طرح ایک پکی دلیل ان کے ہاتھ آجائے گی بات ساری بتوں کی ہے وہابی یاروں نے خواہ مخواہ نبیوں ‘ رسولوں ‘ ولیوں اور بزرگوں کو اس میں شامل کرلیا ہے حالانکہ یہ سراسر ایک دھوکا اور فریب ودجل ہے اگر غور کیا جائے تو بات سمجھ آسانی سے آسکتی ہے کہ جن نبیوں ‘ رسولوں اور ولیوں کے بت بنائے گئے کیا انہوں نے ان کو اپنے بت بنانے کا حکم دیا تھا ؟ ہرگز نہیں اچھا لوگوں نے بت بنا لئے تو ان پوجنے والوں نے اسی لئے دراصل بیزاری کا باعث بھی وہی ہیں نہ کہ فی نفسہ بت یا وہ لوگ جن کے بت بنائے گئے تھے ۔ اب انداز تخاطب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ان لوگوں کو دشمنی اور بیزاری کا باعث کہیں جو ان کی پرستش میں لگے ہیں تو اس انداز تخاطب سے جھگڑے کا امکان بڑھے گا اور کوئی آدمی اور خصوصا وہ آدمی جس کو کل نبی ورسول بنایا جانے والا ہے وہ ایسا انداز اختیار کرکے ان کو تفہیم کرا سکے گا ؟ یقینا نہیں بلکہ اس سے حالات کے مزید بگڑنے کا قوی اندیشہ ہے پھر اس کو کیا کرنا چاہئے ؟ یہی کہ وہ اس نظریہ سے بیزاری کا اعلان کر دے اور یہی ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا ۔ خیال رہے کہ (عدو) کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو کسی دشمن کے قصد و ارادہ کی بنا پر (عدو) قرار پایا ہے جیسا کہ ارشاد الہی ہے (آیت) ” فان کان من قوم عدوکم “۔ پس اگر وہ ایسی قوم سے ہے کہ جو تمہاری دشمن ہے “ اس لحاظ سے لفظ (عدو) قرآن کریم میں بکثرت استعمال ہوا ہے اور دوسرا وہ (عدو) کہ جس کے قصد اور ارادہ کو تو دشمنی میں کچھ دخل نہیں لیکن اس کی حالت ایسی ہو یا جس کی بنا پر اس سے ویسی ہی اذیت پہنچی ہو جیسی کہ دشمنوں سے پہنچا کرتی ہے جیسے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول (آیت) ” فانھم عدولی الا رب العلمین “ پس یہ سارے تو میرے نظریاتی دشمن ہیں سوائے پروردگار عالمین کے ۔ شاید آپ کے لئے اس کو سمجھنا ابھی مشکل ہو میں زیادہ وضاحت سے عرض کرتا ہوں ۔ قرآن کریم میں ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ان من ازواجکم واولادکم عدوا لکم فاحذورھم “۔ (64 : 14) ” اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں بعض تمہارے دشمن ہیں انکی طرف سے ہوشیار رہو “۔ (1) ۔ یعنی ان کی دنیا بنانے کے لئے اپنی عاقبت برباد نہ کرلو ۔ (2) ۔ انکی محبت کو اپنے دل میں اس حد تک نہ بڑھنے دو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ تمہارے تعلق اور اسلام کے ساتھ تمہاری وفاداری میں حائل ہوجائیں اور یہی بات اس جگہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ارشاد فرمائی کہ لوگو ! میں تو ان لوگوں کی محبت میں اس قدر آگے نہیں بڑھ سکتا جن کے تم نے بت بنا رکھے ہیں کہ میں اس محبت کا ان کو اہل قراردے دوں جو محبت مجھے خالصتا اللہ رب العالمین ہی سے کرنا چاہئے رہی یہبات کہ وہ محبت کیا ہے ؟ تو وہ وہی عبادت ہے جس کا پیچھے سے ذکر چلتا آرہا ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو میں تو انکی عبادت نہیں کرتا میں تو خالصتا رب العالمین ہی کی عبادت کرتا ہوں اور اسی کو اپنی عبادت کا مستحق سمجھتا ہوں ۔ پھر استعارہ کی حد اور ادب کا کمال یہ ہے کہ یہ نہیں ارشاد فرمایا کہ ” یہ تمہارے دشمن ہیں “ بلکہ صاف صاف لفظوں میں کہا تو یہ کہا کہ ” یہ میرے دشمن ہیں “ ناصح کریم کا انداز ایسا ہی ہوتا ہے وہ براہ راست دوسروں پر حملہ نہیں کرتا بلکہ اپنی ذات سے آغاز کرتا ہے اور قرآن کریم کی بلاغت میں یہ انداز اکثر پایاجاتا ہے اور بلاشبہ یہ اس کلام کے اعجازات میں سے ایک بہت بڑا اعجاز ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو سب کچھ کہہ بھی دیتا ہے اور بظاہر کچھ کہتا نظر بھی نہیں آتا تاکہ مخالفت مزید مخالفت میں بڑھتا ہی نہ چلا جائے اور اس طرح وہ مخالفت ہی مخالفت میں اپنا نقصان در نقصان کرتا چلا جائے کیونکہ ناصح کریم کا کام دراصل اپنا نقصان کرنے والوں کو اپنے ہی نقصان سے باز رکھنا ہوتا ہے اگر وہ باز رہ سکیں ۔ اس لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مسلسل سلسلہ شروع کردیا جیسا کہ آگے بیان آرہا ہے ۔
Top