Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 87
وَ لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَۙ
وَلَا تُخْزِنِيْ : اور مجھے رسوا نہ کرنا يَوْمَ يُبْعَثُوْنَ : جس دن سب اٹھائے جائیں گے
اور جس دن لوگ اکٹھے کیے جائیں گے مجھے رسوا نہ کیجیو
آپ نے دعا جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کیجئے : 87۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کے حق میں دعا کرنے کی انتہاکردی اور اپنے رب کریم کے حضور اس طرح اپیل اور سفارش کے لئے ہاتھ جوڑے کہ اس سے بہتر اور اس سے بڑی سفارش کسی دوسرے انسان سے ممکن نہیں ہے ، اس دنیوی زندگی میں جس میں ہم رہ رہے ہیں بلاشبہ اس سے بڑی اور کوئی رسوائی نہیں ہوسکتی کہ کسی انسان کے سامنے اس کے والد کو کوئی رسوا کردے ۔ اگر والد پر ایسی کوئی بات آرہی ہو تو انسان کوشش کرکے اس کو اپنے سر لینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور والد کے حق میں اس کو برداشت نہیں کرسکتا یہاں تک کہ اس کا بس چلے تو وہ زندہ رہنا ہی پسند کرے گا اور اس عزت پر وہ جان تک قربان کر دے گا ۔ کس لجاجت ‘ کس الحاح وزاری سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) دعا کر رہے ہیں کہ میرے والد کی رسوائی اور وہ بھی دنیا کے سارے انسانوں کے سامنے اے اللہ ! اس کو ہدایت عطا فرما دے تاکہ میں بھی اس رسوائی سے بچ سکوں ۔ غور کیجئے کہ الہی فیصلے کتنے اٹل اور کتنے پختہ ہوتے ہیں کہ ان میں کسی ردوبدل کا کوئی امکان تک نہیں ہوتا اور کوئی اس کا کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو وہ اپنے کسی پیارے کے لئے اپنے قانون میں ترمیم نہیں کرتا اور نہ ہی قانونی خانہ پری کرنے کے لئے وہ کسی تصنع اور بناوٹ سے کام لیتا ہے اور یہی اس کے قادر ہونے کی نشانی ہے وہ مکمل طور پر بااختیار ہے لیکن اپنے اختیار رکھ کر اس طرح استعمال کرتا ہے جس طرح اس کے استعمال کرنے کا اس نے کہہ دیا ہے اس کا کوئی اعلان ‘ اس کے کسی فعل اور اس کا کوئی فعل ‘ اس کے کسی اعلان کے خلاف نہیں ہے ، جو اس نے کہا ہے بالکل وہی کیا ہے اور جو کیا ہے بالکل وہی کہا ہے اس کے قول وفعل میں کبھی ردوبدل نہیں ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے اور نہ ہی ممکن ہے اس نے اپنے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کی بات سنی اور اس کی دعا و پکار کو سن کر اس کو واضح الفاظ میں اس کی دعا کا جواب بھی سنا دیا اور کوئی بات مبہم نہیں رہنے دی بلکہ بڑے پیار سے فرمایا کہ اے ابراہیم ! جو دعا تو کر رہا ہیں ہم اس کو اچھی طرح سن رہے ہیں آ ہم تیری دعا کی تکمیل کردیں اے میرے خلیل ابھی تیری دعا مکمل نہیں ہوئی ۔ آزر تیرا باپ ہے ‘ صحیح لیکن تو میرا خلیل ہے جس طرح تیرا تعلق تیرے باپ سے ہے میرا تعلق بھی تیری دوستی سے ہے ‘ تو باپ کی بخشش چاہتا ہے اور ہم اپنے خلیل کی نافرمانی کرنے والے کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں ، جبتک وہ ہمارے خلیل کی نافرمانی سے باز نہ آئے ہم اس کو معاف نہیں کرسکتے ۔ رہا تیرا تعلق کہ وہ تیرا باپ ہے اور تو اس کا بیٹا تو اس سلسلہ میں ہمارا قانون اچھی طرح سن لے اور اس کو یاد رکھ ۔
Top