Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 11
اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس ظَلَمَ : ظلم کیا ثُمَّ بَدَّلَ : پھر اس نے بدل ڈالا حُسْنًۢا : بھلائی بَعْدَ : بعد سُوْٓءٍ : برائی فَاِنِّىْ : تو بیشک میں غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
مگر ہاں ! جس نے ظلم کیا اور پھر برائی کے بعد نیکی سے اس کو تلافی کی تو بلاشبہ میں بخشنے والا پیار کرنے والا ہوں
ہاں ! جس سے قصور ہوجائے اور وہ نیکی سے برائی کو بدل دے تو اللہ غفور ورحیم ہے : 11۔ یہ راز ونیاز اللہ اور اس کے رسول حضرت موسیٰ کے درمیان تھا ۔ حضرت موسیٰ نے آواز سنی اور نبوت و رسالت کے ڈالے جانے والے بار کو محسوس کیا اور خیالات کی دنیا نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔ آج دنیا بہت ترقی کرچکی ہے لیکن اس کے باوجود حال اور مستقبل کے چکر میں ہے اور باوجود ساری چالاکیوں کے ماضی اس کے قبضہ میں نہیں آیا حالانکہ فطرت انسانی یہ ہے کہ وہ حال ومستقبل کی بنسبت ماضی کی طرف زیادہ سفر کرتی ہے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خیال بھی ماضی ومستقبل کا کوئی چکر نہیں بلکہ سب حال ہی حال ہے اس نے بات کو جاری رکھتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کے خیالات کو فورا روک دیا کہ دیکھو موسیٰ (علیہ السلام) جس شخص سے بھی کوئی قصور ہوجائے اور وہ اپنی زبان پر بھول سے کوئی زیادتی کر بیٹھے یا عدم علم پر کی بنا پر اس سے کوئی ایسی بھول سرزد ہوجائے تو اسے فورا اس برائی کو نیکی سے بدل دینا چاہئے ، یہ سمجھتے ہوئے کہ میرا پروردگار تو نہایت شفقت کرنے والا اور پیار کرنے والا ہے ، اے موسیٰ (علیہ السلام) ! تو نے تو کیا بھی نہیں تھا بلکہ تجھ سے تو ہوگیا تھا اور کرنے اور ہونے میں جو فرق ہے وہ تو انسان بھی سمجھتے ہیں اور میں جس کے سامنے تو کھڑا ہے تیرا پروردگار ہوں ‘ تو کسی خیال میں گم ہو چلا ہے ، ہم جانتے ہیں کہ اس قبطی کو تو نے قتل کیا نہیں تھا بلکہ وہ تو تجھ سے قتل ہوگیا تھا اور میری مشیت کے فیصلے کبھی کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتے ،
Top