Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 13
فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌۚ
فَلَمَّا : پھر جب جَآءَتْهُمْ : آئیں ان کے پاس اٰيٰتُنَا : ہماری نشانیاں مُبْصِرَةً : آنکھیں کھولنے والی قَالُوْا : وہ بولے ھٰذَا : یہ سِحْرٌ مُّبِيْنٌ : جادو کھلا
پھر جب یہ بصیرت افروز نشانیاں ان کے پاس پہنچیں وہ کہنے لگے کہ یہ تو صریح جادو ہے
فرعونیوں نے بصیرت افروز نشانیاں دیکھ کر بھی موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر ہی قرار دیا : 13۔ فرعون نے اپنی مغرورانہ سرشت کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے رسول اللہ ہونے کا استخفاف کیا اور مذاق وتحقیر کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت سے بحث شروع کردی اپنے گھرانے کے احسان جتائے اور مصری کے قتل والا معاملہ یاد دلایا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خوف زدہ کرنے کی پوری پوری کوشش کی مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ ان سب مراحل کے متعلق اللہ رب العزت سے ہر قسم کا اطمینان کرچکے تھے اس لئے ان پر مطلق نہ خوف کا کوئی اثر ہوا اور نہ ہی ان کو کوئی غصہ آیا بلکہ انہوں نے فرعون کے گھرانے کی تربیت کا اعتراف بھی کیا اور مصری کے قتل کی غلطی کو بھی تسلیم کیا مگر ساتھ ہی ایک ایسی مسکت برہان اور خاموش کن دلیل بھی پیش کردی کہ فرعون واقعی لاجواب ہوگیا اور اس نے ناراضگی اور غصہ کے اظہار کی بجائے گفتگو کا پہلو فورا بدل دیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے رب العالمین کے متعلق بات چیت شروع کردی اور آپ کی دلیل وحجت یہی تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تو نے جو کچھ کہا میری شخصیت اور ذات سے متعلق ہے لیکن کیا یہ باتیں اس کے لئے جواز کا باعث بن سکتی ہیں کہ بنی اسرائیل کی پوری قوم کو تو غلام بنائے رہے یہ تو صریح ظلم ہے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس طرح دلائل کی بھرمار کردی کہ فرعون کے پاس سوائے خاموش کے کوئی چارہ کار نہ تھا ۔ فرعون کو درباریوں اور عام قبطیوں پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اپنی شکست صاف نظر آنے لگی تاہم اس نے اپنی شکست کو چھپانے کے لئے مسطورہ بالا طریقہ اختیار کیا اور اپنے احسانات کا بار جتلایا مگر وہ خود سمجھتا تھا کہ یہ ایک دھوکا ہے اور بس اس سے دلوں کو تسلی نہیں ہو سکتی اور بہت ممکن ہے کہ بہت سے مصری بھی اس کو سمجھتے ہوں تاہم اس نے درباریوں اور خواص وعوام میں ایک بار اس کو سنبھالا دینے کی مزید کوشش کی حالانکہ اس کو حق و باطل کی اس کشمکش میں اپنے لئے سخت خطرہ نظر آرہا تھا اسی لئے اس نے معاملہ کو صرف یہی ختم نہیں کردیا بلکہ ضروری سمجھا کہ اپنی سطوت وجبروت اور قہر مانیت کا اثر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی ڈالے اور اس طرح اس کو مرعوب کرکے پیغام حق کے فرض سے اس کو باز رکھے چناچہ وہ کہنے لگا اسے موسیٰ ! اگر تو نے میرے سوا اور کسی کو معبود قرار دیا تو میں تجھ کو قید میں ڈال دوں گا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اگرچہ میں تیرے پاس اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ کی جانب سے واضح نشان لے کر آیا ہوں تب بھی تیرے غلط راستے کو اختیار کرلوں ؟ فرعون نے کہا اگر واقعی تو اس بارہ میں سچا ہے تو کوئی نشان دکھا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگے بڑھے اور بھرے دربار میں فرعون کے سامنے اپنی لاٹھی کو زمین پر ڈالا تو اسی وقت اس نے ایک اژدھا کی شکل اختیار کرلی اور یہ حقیقت بھی تھی کوئی نظر کا دھوکا نہیں تھا پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا دوسرا نشان پیش کرنے کے لئے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالا اور پھر وہاں سے باہر کو لائے تو وہ ایک روشن ستارہ کی مانند چمک رہا تھا اور یہ دونوں نشانات اس بات پر دال تھے کہ اس ملک میں حکومت کا حق بنی اسرائیل کو ہے فرعون کو نہیں اور اصل حاکم رب العالمین ہی ہے فرعون کوئی اوتار وغیرہ بھی نہیں ہے ، فرعون کے درباریوں نے جب اس طرح ایک اسرائیلی کے ہاتھوں اپنی قوم اور اپنے بادشاہ کی شکست کو دیکھا تو تلملا اٹھے اور کہنے لگے کہ بلاشبہ یہ تو بہت بڑا ماہر جادوگر ہے اور اس نے یہ سارا ڈھونگ اس لئے رچایا ہے کہ تم پر غالب آکر تم کو تمہاری سرزمین مصر سے باہر نکال دے ۔
Top