Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 15
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق دیا ہم نے دَاوٗدَ : داود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان عِلْمًا : (بڑا) علم وَقَالَا : اور انہوں نے کہا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے فَضَّلَنَا : فضیلت دی ہمیں عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے عِبَادِهِ : اپنے بندے الْمُؤْمِنِيْنَ : مون (جمع)
اور بلاشبہ ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو علم عطا فرمایا اور وہ دونوں کہا کرتے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی
داؤد اور سلیمان کو بھی علم دیا گیا اور وہ دونوں اللہ کے شکرگزار بندے تھے : 15۔ فرعون کی سرگزشت نے یہ بات ثابت کردی کہ فرعونیت اختیار کرنے والے اس لئے نہیں اختیار کرتے کہ ان کو حق وصداقت کا علم نہیں ہوتا بلکہ وہ اس لئے اس کو اختیار کرتے ہیں کہ ان کے پاس مال و دولت کے ڈھیر ہوتے ہیں اور اس ورطہ پر انکو ایسے اعوان انصار اور مشیر وزیر مل جاتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملا کر ان کو غلط راستے پر گامزن کردیتے ہیں اور ایک بار جب وہ قدم اٹھا لیتے ہیں تو پھر ہر قدم اسی سمت اٹھانے پر وہ مجبور ہوجاتے ہیں اور ان کا ظلم وستم روز بروز ترقی ہی کرتا چلا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نعمت و خوشحالی بھی ان کے لئے فتنہ وآزمائش بن کر رہ جاتی ہے اور اس طرح وہ دن رات اپنے ظلم وستم میں آگے سے آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں ، لیکن کیا سب کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے ؟ فرمایا نہیں ان کے مقابلہ میں اللہ کے ایسے نیک بندے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اس طرح کی خوشحالی کی نعمت کو دیکھ کر بارگاہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام میں سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اگر ان کی مثال دیکھنا چاہتے ہو تو سیدنا داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر اور ان دونوں رسولوں کی سرگزشت کا مطالعہ کرو ان دونوں رسولوں کو اللہ رسالت ونبوت کے ساتھ ساتھ حکومت وفرمانروائی سے بھی نوازا تھا اور جو عظمت و شوکت اللہ نے ان کو عطا کی تھی ان کے ہم عصر بادشاہوں میں سے کسی کو بھی نہیں کی تھی اور جن اسباب ووسائل پر اللہ نے ان کو تصرف بخشا لیکن یہ سب کچھ پاکر وہ کسی ظلم وستکبار میں مبتلا نہ ہوئے بلکہ انہوں نے ہر نعمت کو اللہ تعالیٰ کا ایک امتحان سمجھا اور اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کی فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان کو علم سے نوازا تھا اس علم سے مراد وہ سارے علوم ہیں جن کی ضرورت نبوت و رسالت کو ہے اور وہ بھی جن کی ضرورت حکمرانی اور حکومت کو ہوتی ہے جس میں وہ سارے علوم داخل ہیں خواہ وہ دینی ہوں یا دنیاوی ‘ سائنسی ہوں یا مذہبی اسی طرح دونوں اللہ کے نبیوں اور رسولوں کو ان ساری چیزوں میں سے کسی چیز پر بھی فخر اور تکبر کرنا نہیں آیا بلکہ وہ اپنے زمانے کے سب سے زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود اپنے زمانے سب سے زیادہ شکرگزار بندے ثابت ہوئے اور ان کے دل میں ایک ذرہ برابر بھی گھمنڈ پیدا نہیں ہوا بلکہ وہ ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ یہ سب کچھ انکا ذاتی کارنامہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے جس نے ہم کو دوسرے انسانوں کے مقابلہ میں عزت وفضیلت عطا فرمائی اور وہ دونوں بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز رہتے تھے اور اس کی حمد و ستائش کے گیت گایا کرتے تھے اور اس طرح ایک طرف تم نے فرعون کی سرگزشت پڑھی ‘ سنی اور دوسری طرف اللہ کے ان نیک اور صالح بندوں کی سرگزشت پر بھی نظر ڈالتے جاؤ اور پھر دونوں سرگزشتوں سے جو سبق حاصل ہوتا ہے اس پر نگاہ رکھو۔
Top