Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 26
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۩  ۞
اَللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا رَبُّ : رب (مالک) الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ : عرش عظیم
اللہ ہی (معبود) ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے
ہدہدنے کس خوبصورتی سے جہاں سے بیان شروع کیا وہی لا کر ختم کردیا : 26۔ ہمارے مفسرین میں سے نہایت مدبر اور علقمند جن کو کہا گیا ہے انہوں نے یہ بیان ہدہد کا قرار نہیں دیا بلکہ اس کو تضمین بنا دیا ہے یہ تو ان کی عقل مندی اور تدبر فی القرآن ہے اور ادھر اس ہدہد کی ذہانت وفطانت اور عقل مندی اور سمجھداری دیکھئے کہ اس نے اپنے مضمون کو جہاں سے شروع کا تھا وہیں لا کر ختم کر دکھایا ہے بات اس نے مکہ کے عرش سے شروع کی تھی اور سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے بیان دینے لئے کھڑے ہوتے ہی اس نے کہا تھا کہ اے بادشاہ سلامت ! میں نے ملک سبا میں ایک ملکہ کو حکمران پایا جس کے ملک میں ہر طرح کی فراوانی اور ہر طرح کا عیش و آرام میسر ہے اور ملکہ کے لئے ایک عرش عظیم بھی جس پر اس کو بہت ناز ہے اور پھر اپنے بیان کے مضمون کو توحید الہی کی طرف پھیر دیا اور اس میں دلیل یہ پیش کی کہ اصل عرش تو وہ عرش ہے جس عرش کا مالک رب ذوالجلال والاکرام ہے باقی عرشوں کی حیثیت اس مالک الملک کے عرش کے سامنے کیا ہے اور کیا ہو سکتی ہے ؟ اور یہ بھی کہ جو شخص اس مالک حقیقی کے عرش پر نگاہ رکھتا ہو اس کو انسانوں کے عرشوں کی کیا پرواہ ہے اور اس کی نگاہ میں وہ کب جچتے ہیں اور ان کی حیثیت ہی کیا ہے ؟ اس طرح اس نے یعنی ہدہد نے ملکہ سبا کو توحید الہی کا سبق سنانے کی خواہش کا اظہار کردیا اور اپنا عندیہ حکومت وقت کے سامنے نہایت سلجھے ہوئے انداز میں پیش کردیا کہ اگر اس کے پاس سب کچھ ہے تو اے سلیمان ! اللہ تعالیٰ کے دیئے کی آپ کے ہاں بھی کوئی کمی نہیں اس لئے ملکہ کو توحید الہی کا سبق سکھانا آپ کے ذمہ ہے کہ آپ ہی اس وقت دنیا میں توحید الہی کے اصل داعی ہیں تو پھر یہ دعوت وہاں بھی پہنچنا چاہئے ۔
Top