Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 31
اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَ اْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
اَلَّا تَعْلُوْا : یہ کہ تم سرکشی نہ کرو عَلَيَّ : مجھ پر وَاْتُوْنِيْ : اور میرے پاس آؤ مُسْلِمِيْنَ : فرمانبردار ہو کر
کہ میرے (پیغام کے) مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور میرے پاس فرمانبردار ہو کر آجاؤ
تحریر ہے کہ تم لوگ میرے مقابلہ میں بڑائی نہ کرو اور فرمانبرداری کے ساتھ میرے پاس آؤ : 31۔ گویا خط تو ملکہ کی طرف ہی لکھا گیا ہے لیکن اس میں مخاطب صرف ملکہ کو نہیں کیا گیا بلکہ حکومت کے لوگوں کو کیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ خط لکھنے والا طاقت وقوت کا مالک ہے اور اس کا مقصد ملک گیری کی ہوس نہیں بلکہ کوئی خاص پروگرام ہے جو وہ پیش کرنا چاہتا ہے اس لئے اس نے حکومت کو مخاطب کرکے بات کرنا چاہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ خط اس مضمون عربی میں انہیں الفاظ میں تحریر تھا نہیں ! بلکہ مقصود ہمیشہ مضمون ہوتا ہے الفاظ کی قید مراد نہیں ہوتی اور اگر یہ بات ہمارے علمائے کرام کے پیش نظر رہے تو وہ احادیث کے الفاظ کی بحث میں کبھی ملوث نہ ہوں کیونکہ یہ اعجاز صرف اور صرف قرآن کریم ہی کو حاصل ہے کہ اس کے الفاظ وحروف من وعن محفوظ ہیں وہ جو نبی اعظم وآخر ﷺ کے قلب مبارک پر ڈالے گئے تھے وہ گزشتہ کن کن زبانوں میں کس کس طرح ادا ہوتے تھے اور یہ کہ فی نفسہ اس وقت کونسی زبان بولی جاتی تھی اس بحث کو قطعا نہیں چھیڑا گیا اور نہ ہی اس طریقہ سے چھیڑنے سے کچھ فائدہ ہوتا ہے بلکہ یہ بات مزید الجھ کر رہ جاتی ہے مطلب یہ ہے کہ ملکہ تک جو مضمون پہنچا وہ کس زبان کا تھا اور کن الفاظ میں ؟ بہرحال وہ اس مضمون پر مشتمل تھا جو قرآن کریم نے اپنی زبان میں ہمارے سامنے پیش کیا خط کا ذکر کرنا اور پھر خط کا سرنامہ بیان کرنا اور بعد میں فی نفسہ وہ مضمون پیش کرنا ساری باتوں میں ہماری زندگی کے لئے اسباق موجود ہیں جو عقل وفکر سے کام لینے والوں کو حاصل ہوتے ہیں ۔
Top