Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 5
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْعَذَابِ وَ هُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَهُمْ : ان کے لیے سُوْٓءُ : برا الْعَذَابِ : عذاب وَهُمْ : اور وہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں هُمُ : وہ الْاَخْسَرُوْنَ : سب سے بڑھ کر خسارہ اٹھانے والے
یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے اور آخرت میں بھی وہی سب سے زیادہ نقصان میں ہوں گے
آخرت پر ایمان رکھنے والے دنیا میں بھی عذاب دیئے جائیں گے اور آخرت میں بھی : 5۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جن لوگوں کا ایمان آخرت پر نہیں ہے کیا وہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں ؟ اس کا جواب یقینا یہی ہے کہ ان کا رسول اللہ ﷺ پر مطلق ایمان نہیں ہے خواہ وہ اس کا دعوی بھی رکھتے ہوں ، کیوں ؟ اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی تعلیمات پر ایمان لایا جائے اور جو کچھ آپ نے فرمایا ہے اس پر کامل یقین رکھا جائے ، جب رسول اللہ ﷺ کی تعلیم یہی ہے کہ ہمارے ہر نیک وبد عمل کا بدلہ ہم کو روز قیامت ملے گا لیکن اس کے باوجود ایک شخص اس پر کامل یقین نہیں رکھتا اس لئے کہ اس کا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جس سے اس بات کی تصدیق ہو سکے کہ وہ آخرت پر بھی یقین رکھتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس نے عقیدہ آخرت کو نہ تسلیم کرکے دراصل نبی اعظم وآخر ﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار کردیا ہے اور نبوت و رسالت کے منکرین کے لئے اس دنیا میں بھی عذاب لازم ہے اور آخرت میں بھی ۔ اس جگہ دنیا کے عذاب کو (آیت) ” سوء ال عذاب “ کہا گیا ہے اور آخرت کے عذاب کو (اخسر) کہا گیا ہے یعنی بہت بڑا نقصان جس کے پورا ہونے کی کوئی صورت ہی نہ رہے کیونکہ وہ عذاب ابدالاد ہوگا جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی اور دنیا کا عذاب تو زیادہ سے زیادہ اس دنیوی زندگی ہی تک ہو سکتا ہے اور دنیوی زندگی آخر کتنی ہے اور وہ بھی خصوصا آخر کے مقابلہ میں ؟ بلاشبہ یہ بات مشاہدہ میں ہے کہ جن قوموں کے دل سے آخرت کا خیال مٹ جاتا ہے وہ اپنا سارا وقت ‘ ساری قوت اس دنیا کی دوڑ دھوپ ‘ اس کی ترقیوں کے لئے وقف کردیتی ہیں اور کر رہی ہیں لیکن افسوس کہ جن قوموں کا آخرت پر عقیدہ کا دعوی ہے وہ فقط دعوی ہی کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور ان کی عملی حیثیت بالکل ختم ہوچکی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ نہ دین کی رہیں اور نہ دنیا کی اس لئے ان کے لئے دوسری جگہ ارشاد الہی اس طرح ہے کہ (آیت) ” خسر الدنیا والاخرۃ “۔ ان کے لئے دنیا میں بھی خسارہ ہے اور آخرت میں بھی خسارہ ‘ وہ یقینا نہ ادھر کی رہی ہیں اور نہ ادھر کی رہی ہیں ، ان کا تفصیلی ذکر دیکھنا چاہیں تو سورة الحج کی آیت 11 کی تفسیر کا مطالعہ کریں اور سورة الحج عروۃ الوثقی کی اسی جلد میں موجود ہے ۔
Top