Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 66
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ١۫ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا١۫٘ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ۠   ۧ
بَلِ ادّٰرَكَ : بلکہ تھک کر رہ گیا عِلْمُهُمْ : ان کا علم فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت (کے بارے) میں بَلْ هُمْ : بلکہ وہ فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّنْهَا : اس سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ مِّنْهَا : اس سے عَمُوْنَ : اندھے
حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے معاملہ میں ان کا علم تھک کر رہ گیا ہے بلکہ وہ اس کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ وہ اس کی طرف سے اندھے ہو کر رہ گئے ہیں
آخرت کے علم کے متعلق تو وہ ہمیشہ ہی شک میں ہیں گویا وہ بالکل اندھے ہیں : 66۔ (درک) اور (درج) دونوں ایک ہی خیال کا اظہار کرتے ہیں فرق یہ ہے کہ درک نیچے سے نیچے چلے جانے پر استعمال ہوتا ہے اور درج اوپر سے اوپر جانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ، فرمایا گیا ہے کہ ” آخرت کے پانے سے ان کا علم پیچھے رہ گیا “ علم کی انتہا کو پہنچ کر رہ جانے سے مراد کیا ہے ؟ یہی کہ وہ جاہل رہ گئے اور ان کے علم کی رسائی وہاں تک نہ پہنچ سکتی (آیت) ” بل ھم فی شک منھا “ یعنی ان کا اپنا علم تو وہاں تک نہ پہنچ سکا لیکن جب ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ علم دیا تو وہ شک میں پڑگئے اور پھر اس شک میں وہ ترقی کرتے کرتے بالکل اندھے ہوگئے گویا اس کے قبول کرنے سے انہوں نے قطعی انکار کردیا ۔ مختصر یہ کہ ان کی حالت کو بیان کرتے ہوئے الوہیت کے بارے میں ان لوگوں کی بنیادی غلطیوں پر متنہ کرنے کے بعد یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ جوان شدید گمراہیوں میں پڑے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ غور وفکر کرنے کے بعد کسی دلیل وبرہان سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ الوہیت میں دراصل کچھ دوسری ہستیاں بھی اللہ تعالیٰ کی شریک ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر ہی نہیں کیا ہے چونکہ یہ لوگ آخرت سے بیخبر ہیں یا اس کی طرف سے شک میں ہیں یا اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں اس لئے فکر عقبی سے بےنیازی نے ان کے اندر سراسر ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ پیدا کردیا ہے اس لئے اس کائنات اور خود اپنی زندگی کے حقیقی مسائل کے بارے میں سرے سے کوئی سنجیدگی رکھتے ہی نہیں
Top