Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 87
وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ
وَ يَوْمَ : جس دن يُنْفَخُ : پھونک ماری جائے گی فِي الصُّوْرِ : صور میں فَفَزِعَ : تو گھبرا جائیگا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : سوا مَنْ : جسے شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہے وَكُلٌّ : اور سب اَتَوْهُ : اس کے آگے آئیں گے دٰخِرِيْنَ : عاجز ہو کر
اور جس دن صور پھونکا جائے گا تو جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں سب گھبرا جائیں گے سوائے اسکے جس کو اللہ چاہے اور سب ہی (اس دن) اللہ کے سامنے عاجزی سے حاضر ہوجائیں گے
جس صور سے ان کو اٹھایا جائے گا اس کی آواز ہی انکے حواس باختہ کردے گی : 87۔ اس وقت کی حقیقت حال بیان کی جارہی ہے کہ جب صورت پھونکا جائے گا جس کی آواز کو سن کر ان کو موت سے اٹھنا ہے اور جو صرف اور صرف اس مقصد کے لئے پھونکا جا رہا ہے ہوگا کہ لوگ اپنی خواب گاہوں سے اٹھکر کھڑے ہوجائیں فرمایا اس وقت ان کی حالت بھی دیدنی ہوگی کہ جب وہ اٹھیں گے تو ان پر اس بھیانک آواز کے باعث گھبراہٹ طاری نہ ہوگی اور ہر ایک اس روز یا اس وقت عاجز و درماندہ ہوگا ۔ قرآن کریم میں (الصور) کا ذکردس بار آیا ہے اور سے پہلے سورة الانعام کی آیت 73 ‘ سورة الکہف کی آیت 99 ‘ سورة طہ کی آیت 103 ‘ سورة المومنون کی آیت 101 ‘ پانچویں بار زیر نظر آیت میں اس کا ذکرآیا ہے۔ (صور) کے لفظی معنی نرسنگھا کے ہیں اور اس کی اصل یہ ہے کہ قدیم الایام میں بابلیوں ‘ کنعانیوں ‘ آرایوں اور عبرانیوں وغیرہ میں شاہی جلال وجلوس اور اعلان جنگ کے موقع پر نرسنگھا پھونکا جاتا تھا ۔ اس نرسنگھا پھونکنے کے معنی شاہی جلال کا اظہار یا غیر معمولی خطرہ کا اعلان ہے اور تورات میں بھی اس کا ذکر بار بار کیا گیا ہے آج کل ہماری زبان میں اس کو ” سائرن “ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ، قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس دن ندا آئے گی (آیت) ” لمن الملک الیوم “ آج کس کی بادشاہی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اس کا جواب دیا جائے گا کہ (آیت) ” للہ الواحد القھار “۔ اس ایک سب پر غالب آنے والی کی ۔ مختصر یہ کہ وہ دن آسمان و زمین میں بہت سخت ہوگا احادیث میں اس کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ یہ نرسنگھا دو بار پھونکا جائے گا ایک بار پوری دنیا کائنات کے لئے جو کچھ اس وقت موجود ہوگا وہ ایک بار فنا ہوجائے گا اور پھر دوسری بار ہر اول وآخر انسان کے اٹھانے کے لئے صور میں پھونکا جائے گا ، زیر نظر آیت میں پہلے نرسنگھا کا ذکر ہے یا دوسرے کا مفسرین نے دونوں کا الگ الگ ذکر کیا ہے کسی نے پہلا قرار دیا ہے جو ہر ایک چیز کے فنا ہونے کے لئے پھونکا جائے گا اور بعض نے دوسرے کا ذکر کیا ہے اور اکثر نے کسی کی تخصیص نہیں کی بلکہ مجمل ذکر کیا ہے اور ہم اس میں بحث نہیں کرتے بلکہ صرف اس قدر کہتے ہیں کہ پہلے صور پر سارا نظام کائنات درہم برہم ہوگا اور دوسرے صور پر ایک دوسرے نظام نئی صورت اور نئے قوانین اور نئے آسمان و زمین کے ساتھ قائم کیا جائے گا اور آیت کے آخر میں جو الفاظ بیان کئے گئے ہیں کہ (آیت) ” وکل اتوہ داخرین “۔ کہ ہر ایک عاجز و درماندہ حاضر ہوگا تو اس سے اشارہ دوسرے صور ہی کی طرف ہوتا نظر آتا ہے اور اصل حقیقت حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے نیز آگے آنے والی آیت میں نظام کے درہم برہم ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔
Top