Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 17
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ بِمَآ : اے میرے رب جیسا کہ اَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيَّ : مجھ پر فَلَنْ اَكُوْنَ : تو میں ہرگز نہ ہوں گا ظَهِيْرًا : مددگار لِّلْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کا
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے رب ! جیسا تو نے مجھ پر فضل فرمایا ہے ، میں کبھی مجرموں کی پشت پناہی نہ کروں گا
فیصلہ قتل پر آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ محتاط رہنے کا وعدہ بھی : 17۔ زیر نظر آیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یقینا اس قتل خطا کا معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا جو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم ہی سے ہوا تھا لہذا آپ نے اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے سابقہ انعامات کے ساتھ اس خاص وقتی انعام کا بھی شکریہ ادا کیا اور نہایت تضرع اور عاجزی کے ساتھ آئندہ کبھی ایسی غلطی نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا اور وضاحت بھی فرما دی کہ میں زندگی میں کبھی مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے آپ نے کسی مجرم کی مدد کی تھی بلاشبہ آپ نے پہلے بھی مجرم کی مدد نہیں کی تھی اور اب بھی اپنی دعا میں اس بات کا ذکر فرمایا کہ میں کبھی مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا جیسا کہ پہلے بھی میں نے کسی مجرم کی مدد میں یہ کام نہیں کیا تھا تاہم میری طرف سے جو سزا اس کو ملی وہ اس کے جرم لاریب زیادہ تھی کہ وہ اپنے جرم میں قتل کا مستحق نہیں تھا لیکن تقدیر میں جو بات طے تھی اس کو کون ٹال سکتا تھا ۔ بہرحال اس واقعہ یعنی اتفاقی قتل کے بعد آپ مزید محتاط ہوگئے اور فرعون کی حکومت سے غیر وابستگی کا اعلان بھی اس میں شامل ہے کیونکہ اس کی حکومت بلاشبہ مجرموں کی حکومت تھی جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا معاملہ بلاشبہ طے ہوگیا تھا لیکن قتل ایک ایسا جرم ہوتا ہے جو بغیر حکومت کی دست اندازی کے ختم نہیں ہو سکتا ۔ حکومت کا قانون اس پر گرفت کرے گا ‘ مقدمہ چلے گا اور اس کے بعد فیصلہ کا وقت آئے گا تو قصاص ودیت یا ورثا مقتول کی طرف معافی ہوگی بغیر حکومت کی دست اندازی کے معاملہ خود بخود ہی ختم نہیں ہوجاتا اندریں وجہ موسیٰ (علیہ السلام) کو محتاط رہنا پڑا اور وہ محتاط ہی رہے کہ کسی وقت بھی اس مسئلہ کو حکومت کھڑا کرسکتی ہے اس لئے یہ خطرہ اپنی جگہ موجود تھا۔
Top