Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 19
فَلَمَّاۤ اَنْ اَرَادَ اَنْ یَّبْطِشَ بِالَّذِیْ هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا١ۙ قَالَ یٰمُوْسٰۤى اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًۢا بِالْاَمْسِ١ۖۗ اِنْ تُرِیْدُ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَا تُرِیْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَنْ : کہ اَرَادَ : اس نے چاہا اَنْ : کہ يَّبْطِشَ : ہاتھ ڈالے بِالَّذِيْ : اس پر جو هُوَ : وہ عَدُوٌّ لَّهُمَا : ان دونوں کا دشمن قَالَ : اس نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اَتُرِيْدُ : کیا تو چاہتا ہے اَنْ : کہ تَقْتُلَنِيْ : تو قتل کردے مجھے كَمَا قَتَلْتَ : جیسے قتل کیا تونے نَفْسًۢا : ایک آدمی بِالْاَمْسِ : کل اِنْ : نہیں تُرِيْدُ : تو چاہتا اِلَّآ : مگر۔ صرف اَنْ تَكُوْنَ : کہ تو ہو جَبَّارًا : زبردستی کرتا فِي الْاَرْضِ : سرزمین میں وَمَا تُرِيْدُ : اور تو نہیں چاہتا اَنْ تَكُوْنَ : کہ تو ہو مِنَ : سے الْمُصْلِحِيْنَ : (واحد) مصلح
پھر (بھی) چاہا کہ اس کو پکڑے جو ان دونوں کا دشمن تھا تو موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنا ہی آدمی جو ( قوم بنی اسرائیل سے تھا) بول پڑا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا تو چاہتا ہے کہ مجھے بھی مار ڈالے جس طرح کل تو نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا (اس خبر نے شہر میں آگ لگا دی) پس تم تو دنیا میں اپنا زور بٹھانا چاہتے ہو اور تم اصلاح کرنا نہیں چاہتے (مثل ہے کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے)
موسیٰ (علیہ السلام) کا ارادہ تو مظلوم ساتھی کی مدد ہی کا تھا لیکن مظلوم انکے حق میں ظالم بن گیا : 19۔ قرآن کریم نے خاموشی کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کردیا ہے اور اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اس لئے کہ واقعہ خود اپنی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے بول رہا ہے ، پیچھے موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل پر فرعون کے ظلم کی انتہا کی دو باتیں قرآن کریم نے ذکر کی ہیں وہ بھی محض اس لئے کہ ان باتوں کو دنیا کا کوئی انسان بھی خواہ وہ کسی ملت و مذہب سے تعلق رکھتا ہو ایسا نہیں ہوگا جو اس کی ان دونوں باتوں کو کھلا ظلم نہ قرار دے ، بنی اسرائیل کی نرینہ اولاد کو ذبح کرنا اور عورتوں کو زندہ رکھ کر ان سے اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنا اور حیوانوں سے بھی بڑھ کر ان پر ظلم کرنا علاوہ اس کے ظلم کی کوئی داستان بیان نہیں کی البتہ اس واقعہ کو اس انداز میں ذکر کردیا کہ ہر صاحب شعور خود بخود سمجھ جائے کہ مصری عبرانیوں پر کس کس طرح ظلم ڈھاتے تھے اور ان سے بگار لیتے تھے کہ روزانہ ان واقعات کا رونما ہونا ان کی ظلم کی کہانی خود بیان کر رہا ہے جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے اس واقعہ سے ظاہر ہو رہا ہے ، مختصر یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ارادہ کیا کہ آگے بڑھ کر اس شخص کو گزشتہ دن کی طرح ماریں یا دھکا تو نہ دین لیکن کم از کم اس کو پکڑیں تو سہی اور حقیقت حال کو معلوم کریں لیکن چونکہ زبان سے جو ڈانٹ پلائی وہ اپنی قوم کے آدمی بنی اسرائیل ہی کو پلائی تو وہ بھی عقل کا اتنا کورا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) قریب جانے ہی والے تھے کہ وہ گھبرا کر بول اٹھا کہ اے موسیٰ کیا تو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے جیسا گزشتہ کل تو نے ایک آدنی کو بےگناہ قتل کردیا ہے ، کیا تو اسی طرح ملک میں ایک زبردست آدمی بننا چاہتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) گزشتہ قتل کو چھپا کر بیٹھے تھے جیسا کہ ہمارے مفسرین نے بیان کیا ہے ہرگز نہیں بلکہ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا ظالم ہونا ثابت ہوجائے اس طرح اس نے عین موقع پر قبطی کے جذبات کو جلا دینا چاہی اور قوم کے ایک محسن کی حمایت کرنے کی بجائے مخالفت میں کھڑا ہوگیا ہاں ! اس نے ایسا کیوں کیا ؟ لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے لئے کہ قومی لیڈر کے خلاف غداری کر کے فرعون کا منظور نظر بن جائے اور ظاہر ہے کہ ملک وملت کے خلاف بیان جاری کرکے لوگ محض سیاسی فائدہ ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو فائدہ ان کا ذاتی ہوتا ہے اور اس طرح وہ ہمیشہ قومی نقصان کرکے ذاتی فوائد حاصل کرتے ہیں بہرحال وہ ابھی اس جگہ اس طرح کی باتوں میں مصروف تھے کہ دور سے دوڑتا ہوا ایک آدمی آیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو الگ کر کے مخاطب ہوا ۔
Top