Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 24
فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤى اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ
فَسَقٰى : تو اس نے پانی پلایا لَهُمَا : ان کے لیے ثُمَّ تَوَلّيٰٓ : پھر وہ پھر آیا اِلَى الظِّلِّ : سایہ کی طرف فَقَالَ : پھر عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں لِمَآ : اس کا جو اَنْزَلْتَ : تو اتارے اِلَيَّ : میری طرف مِنْ خَيْرٍ : کوئی بھلائی (نعمت) فَقِيْرٌ : محتاج
غرض (یہ سن کر) موسیٰ نے ان کے لیے (ریوڑ کو) پانی پلا دیا پھر ہٹ کر سایہ میں آگیا اور عرض کی اے میرے پروردگار ! تو نے جو نعمت مجھے عطا فرمائی (کہ ایسا نیک کام کرنے کا موقع فراہم کردیا) میں اس کا محتاج ہوں
موسیٰ (علیہ السلام) نے آگے بڑھ کر ان لڑکیوں کے ریوڑ کو پانی پلا دیا : 24۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان دونوں لڑکیوں کی بات سنی تو آپ کا خون کھول گیا اور جوش آیا ‘ آگے بڑھ کر تمام بھیڑ کو چیرتے ہوئے کنویں پر جا پہنچے اور کنوئیں کا بڑا ڈول اٹھایا اور تنہا کھینچ کر لڑکیوں کے ریوڑ کو پانی پلا دیا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) جب بھیڑ کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے تو بلاشبہ لوگوں کو ناگوار گزرا مگر آپ کی پر جلالی صورت اور جسمانی طاقت قوت سے مرعوب ہوگئے اور ڈول کو تنہا کھینچتے دیکھ کر آپ کی قوت و طاقت کے سامنے ہار مان گئے اور کچھ نہ بول سکے اور نہ ہی کچھ کہہ سکے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے مظالم کی داستانیں سنیں اور دیکھی تھی اور اس کے مقابلہ میں کھڑے ہونا چاہا تھا لیکن حالات نے اجازت نہ دی اور آپ کی زندگی کا رخ ایک وقت تک مصر کو موڑ دیا لیکن جب مدین پہنچے تو وہاں بھی ان دو لڑکیوں کو دیکھ کر وہی حالت پائی جو مصر میں چھوڑ گئے تھے کہ یہاں بھی وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو دنیا کی ظالم قوموں نے اختیار کررکھا ہے اور اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے قانون کو توڑ کر قوموں کا سارا نظام ظلم کی بنیادوں پر قائم کردیا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ لڑکیاں کمزور اور ضعیف گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں تب ہی تو اس انتظار میں ہیں کہ قومی اور سرکش جب اپنے اپنے جانوروں کو سیراب کر چکیں اور ہر واردصادر پانی پر سے چلا جائے تو بچا کچھا پانی ان کے جانوروں کا حصہ بنے ، گویا ہر قوی نے ضعیف کے لئے یہی تجویذ کردیا ہے کہ فائدے میں وہ مقدم ہے اور ضعیف مؤخر اور قومی کا ” اولش خور “ جہاں جاؤ اور جدھر جاؤ ، موسیٰ (علیہ السلام) کو اس وقت کے حالات دیکھ کر اس قدر غصہ آیا اور پھر غصہ کو پی گئے ؟ نہیں بلکہ آگے بڑھ کر اس غصہ سے وہ کام کردکھایا جو چار پانچ آدمی بھی ملکر نہیں کرسکتے تھے ۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اگر اس وقت اس ملک عزیز میں آجائیں جہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے اور بےلوگ چھوٹوں کو اپنے پاس کھڑے ہونا بھی برداشت نہیں کر رہے ۔ بڑے پیدا ہوتے ہیں ان منہ میں سونے کی چمچیاں ہوتی ہیں جن کے اندر ہی خوراک بھر دی گئی ہے اور غریبوں کے بچوں کی پرورش کے سارے انتظامات الگ ‘ تعلیمات کا بندوبست الگ ‘ خوردونوش اور پوشاک کا بندوبست الگ ان کی رہائش گاہوں اور سونے کے کمروں اور بستروں کا بندوبست الگ ‘ انکے آنے اور جانے کا بندوبست الگ ‘ ان کے بول وبراز کے طریقے اور جگہوں کا انتظام الگ ، گویا ان میں صرف ایک لفظ انسان یا بشر کے سوال کوئی چیز بھی آپس میں نہیں ملتی اور ان ظالموں کے ظلم کی داستان اتنی لمبی ہے کہ وہ بیان ہی نہیں کی جاسکتی لیکن ہم میں سے تو کسی کا خوان بھی نہیں کھولتا اور کسی کو بھی غصہ نہیں آتا اور ان ظالموں کی موجودگی میں اس پانی والے کنوئیں تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا ، مگر ہاں ! وہی جو اپنی ذات کے لئے کوشش کرتا ہے اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہم میں بھی کوئی موسیٰ پیدا فرما دے ہاں ! وہی موسیٰ جو نبوت سے پہلے والا موسیٰ تھا اور ہم میں سے بھی اس موسیٰ کا خون کھول جائے کہ اس ملک عزیز میں جو ان ظالموں نے ظلم مچا رکھا ہے ان کی موجودگی میں اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ قوم کی خاطر اس پانی والے کنوئیں تک پہنچ جائے ، آج یہ لوگ عرب کے مشہور شاعر عمروبن کلثوم کا یہ شعر پڑھتے ہیں تو جھوم جاتے ہیں ۔ ونشرب ان وردنا الماء صفوا ویشرب غیرنا کدراوطینا : ” اور ہم جب کسی پانی پر آتے ہیں تو عمدہ اور صاف پانی ہمارے حصہ میں آتا ہے اور ہمارے غیروں کے (جو ہم سے کمزور ہیں) حصہ میں گدلا پانی اور مٹی ہے ۔ “ ” غور کرو کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کس جذبہ کے تحت ان لڑکیوں کے ریوڑ کو پانی پلایا لیکن اپنی ذاتی باتوں میں سے ایک کا اشارہ تک بھی نہیں کیا حالانکہ آپ ایک نو وارد مسافر تھے اور اس طرح ان لڑکیوں میں سے بھی کسی نے کوئی بات ان سے نہیں کی آپ ناواقف اور نا آشنا ہیں آخر آپ کہاں سے آئے ہیں اور ہمارے ساتھ یہ کس ہمدردی کا عمل کر رہے ہیں ۔ لڑکیاں جب واپس چلی گئیں تو موسیٰ (علیہ السلام) پھر کر اس اس کنوئیں کے قریب ہی کسی درخت کے سایہ کے نیچے کھڑے ہوگئے اور اپنے دل ہی دل میں ایک آہ بھر کر کہنے لگے ” اے میرے پروردگار ! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں “ گویا اپنے دل میں جو کچھ تھا اور جس چیز کی ضرورت اور طلب تھی اس کو براہ راست اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہی کی خدمت میں پیش کیا کسی انسان سے اس کا اظہار نہیں کیا ۔
Top