Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 26
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ١٘ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ
قَالَتْ : بولی وہ اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک يٰٓاَبَتِ : اے میرے باپ اسْتَاْجِرْهُ : اسے ملازم رکھ لو اِنَّ : بیشک خَيْرَ : بہتر مَنِ : جو۔ جسے اسْتَاْجَرْتَ : تم ملازم رکھو الْقَوِيُّ : طاقتور الْاَمِيْنُ : امانت دار
اور دونوں میں سے ایک نے کہا ، اے باپ ! ان کو ملازم رکھ لیجئے کہ بلاشبہ اچھا نوکر وہی ہے جو طاقتور اور امانتدار ہو
دونوں لڑکیوں میں سے ایک نے والد سے کہا کہ یہ اجر کے مستحق ہیں تو قوی وامین بھی ہیں : 26۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس لڑکی نے اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے ہی یہ بات کہہ دی تھی اگرچہ اس میں بھی کوئی قباحت نہیں تاہم قرین قیاس یہی ہے کہ لڑکی نے والد سے یہ بات کی ہوگی اور اس طرح جس طرح اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو ٹھہرا ہی لیا گیا اور وہ بھی ٹھہر گئے تھے تو اس طرح کے صلاح ومشورے گھر میں بہر حال ایک فطری چیز ہے اس سے زیادہ سے زیادہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ والدین کو اولاد کے مشورہ کے بغیر کوئی قدم اٹھانا درست نہیں اس کے غلط نتائج بھی نکل سکتے ہیں خصوصا ان بچوں کے متعلق جس کے عقد مسنونہ کا مسئلہ درپیش ہو اور یہ بھی کہ لڑکی نے جو والد سے بات کہی ہے تو اس کے جواب میں کہی ہے اگرچہ قرآن کریم نے والد کے استفسار کرنے کا ذکر نہیں کیا اور قرآن کریم کے کلام میں یہ بات عام طور پر پائی جاتی ہے کہ وہ خود بخود پر ہوجانے والے خلاؤں کو اکثر چھوڑ دیتا ہے تاکہ کلام زیادہ لمبا نہ ہو لیکن طریق بیان ایسا اختیار کرتا ہے کہ کتنے سوال خود بخود ختم ہو کر رہ جاتے ہیں اور کتنی باتیں ہوتی ہیں جن کا جواب بغیر سوال کئے مل جاتا ہے مثلا اوپر ابھی ذکر گزر چکا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلایا تو خوموشی کے ساتھ وہاں سے واپس آکر سایہ میں ٹک گئے اس طرح صرف (تولی الی الظل) کے الفاظ بول کر یہ بتادیا کہ یہ موسم گرما کا تھا جس موسم میں موسیٰ مدین پہنچے تھے نہ سوال ایسا اٹھایا اور نہ ہی جواب کی ضرورت پیش آئی لیکن ایک پتہ اور ضرورت کی بات چلتے چلتے ایسی کردی کہ اس میں کتنے ہی سوالوں کا خودبخود جواب آگیا جب کہ نہ سوالوں کا ذکر ہوا اور نہ جوابوں کا ، اسی طرح زیر نظر آیت میں والد کے بات کرنے اور مشورہ کرنے کا نام تک بھی نہیں لیا لیکن عبارت اس طرح بیان کی کہ یہ معلوم ہوگیا کہ ایسے حالات میں کون کون سی باتیں کرنا ضروری ہوتی ہیں اور ان کا تصفیہ گھروں میں کتنا ضروری ہوتا ہے اور یہ بھی کہ اولاد سے اگر والدین مشورہ طلب کریں تو ان کو بےجھجھک اپنا عندیہ ظاہر کردینا چاہئے یہ بات اولاد کی فرمانبرداری کی نشانی ہے نہ کہ اولاد کی بےلگامی کی بلاشبہ وہ اولاد کبھی سعادت مند نہیں ہوتی جو وقت پر اپنی بات کھل کر نہ کرے ۔ ہاں ! اگر ایک بات مشورہ سے طے ہوجائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے اس کو نباہنا اور پایہ تکمیل تک پہنچنا فرض ہوجاتا ہے حالات خواہ کچھ بھی ہوں معاشرتی زندگی میں اتار چڑھاؤ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا سارا انحصار اللہ رب العزت پر ہے اور اس سے دعا کرنیچاہئے کہ وہ حالات کو ساز گار بنائے اور کسی پریشانی سے دو چار نہ کرے اور یہاں تو حالات کی نزاکت سب کچھ خود بول رہی ہے کسی کے بولنے کی کوئی حاجت ہی نہیں ۔
Top