Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 31
وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْ١ؕ یٰمُوْسٰۤى اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ١۫ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ
وَاَنْ : اور یہ کہ اَلْقِ : ڈالو عَصَاكَ : اپنا عصا فَلَمَّا رَاٰهَا : پھر جب اس نے اسے دیکھا تَهْتَزُّ : لہراتے ہوئے كَاَنَّهَا : گویا کہ وہ جَآنٌّ : سانپ وَّلّٰى : وہ لوٹا مُدْبِرًا : پیٹھ پھیر کر وَّ : اور َمْ يُعَقِّبْ : پیچھے مڑ کر نہ دیکھا يٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اَقْبِلْ : آگے آ وَلَا تَخَفْ : اور تو ڈر نہیں اِنَّكَ : بیشک تو مِنَ : سے الْاٰمِنِيْنَ : امن پانے والے
اور (اے موسیٰ ) اپنا عصا پھینک دو پھر جب اس کو پتلے اور تیز سانپ کی طرح حرکت کرتے دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہوا اور (پیچھے) مڑ کر بھی نہ دیکھا ، اے موسیٰ ! آگے بڑھو اور مت ڈرو ، تم تو امن پائے ہوئے ہو
موسیٰ کی لاٹھی پھینکنے کا حکم اور سانپ کو دیکھ کر نہ ڈرنے کا حکم : 31۔ لاٹھی کے سانپ بنانے جانے اور سانپ کے لاٹھی ہوجانے کے استعارات کیوں استعمال کئے گئے ان میں کیا حکمت تھی ؟ اس کی ضرورت کیا پیش آئی ؟ اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ موسیٰ (علیہ السلام) کیسے ڈرے اور آپ کا ڈر کیسے دور ہوگیا ؟ اس طرح کے سارے سوالات کے جوابات سورة طہ کی آیات 19 تا 23 میں تفصیل سے دیئے جا چکے ہیں وہاں سے ایک نظر دیکھ لیں اور حقیقت حال کو یاد رکھنے کی کوشش کریں کیونکہ وہ استعارات ہیں جو اکثر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات میں پائے جاتے ہیں ایک بار بات سمجھ لی جائے تو سب جگہوں پر وہ کام دے سکتی ہے مطلب سمجھ میں آچکا ہے تو ان استعارات کے پڑھنے اور ادا کرنے میں جو لطافت ہے وہ لمبے لمبے قصوں اور کہانیوں میں کہاں میسر آتی ہے ، ان پر ایک بار نظر پڑتے ہی پورے کا پورا مضمون انسان کے دل پر اترنا شروع ہوجاتا ہے جس سے انسان کی عملی قوت کو وہ طاقت حاصل ہوتی ہے جو بیان سے باہر ہے ۔
Top