Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 34
وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ١٘ اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ
وَاَخِيْ : اور میرا بھائی هٰرُوْنُ : ہارون هُوَ : وہ اَفْصَحُ : زیادہ فصیح مِنِّيْ : مجھ سے لِسَانًا : زبان فَاَرْسِلْهُ : سو بھیجدے اسے مَعِيَ : میرے ساتھ رِدْاً : مددگار يُّصَدِّقُنِيْٓ : اور تصدیق کرے میری اِنِّىْٓ اَخَافُ : بیشک میں ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يُّكَذِّبُوْنِ : وہ جھٹلائیں گے مجھے
اور میرا بھائی ہارون بہت فصیح اللسان ہے اس لیے اس کو میری مدد کے لیے میرے ساتھ رسالت دے دے تاکہ وہ میری تصدیق کرے ، مجھے شبہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں
موسیٰ (علیہ السلام) کی عرضداشت بدگارہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام : 34۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بدرگاہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام عرض کیا کہ اے میرے پروردگار ! میرے ہاتھ سے ایک مصری قتل ہوگیا تھا اگرچہ اس کا تصفیہ ہوچکا لیکن فرعون حکمران ہے وہ اس معاملہ کو میرے لئے پریشانی کا باعث بنا سکتا ہے اور اگر وہ چاہے گا کہ میں موسیٰ کو قتل کرا دوں تو وہ اس کا بہانہ بنا سکتا ہے اور پھر اور کچھ نہیں تو اس کو مجھے جھٹلاتے ہوئے تو کچھ دیر نہیں لگے گی اور بلاشبہ یہ قتل خطا کی ایک ایسی خطا ہے جو میرے گلے میں اٹکتی ہے اور مجھے صاف بات نہیں کرنے دیتی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی فطری کمزوری واضح طور پر اپنے پروردگار کے سامنے بیان کی اس لئے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور رسل عظام (علیہ السلام) کے سینے ‘ دل اور دماغ ہر قسم کے داغ دھبوں اور میل کچیل سے پاک ہوتے ہیں انکو اپنی معمولی سے معمولی بات بھی کھٹکتی ہے اور دوسروں کا وہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں لیکن اپنے اوپر میل کی ایک چھینٹ بھی سخت شاق گزرتی ہے اور اس طرح کی باتیں ہیں جو انبیاء کرام (علیہ السلام) کو دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتی ہیں ہمارا آپ کا حال یہ ہے کہ اپنی ساری زندگی داغ داغ ہو تو ہمیں کبھی خیال تک بھی نہیں آتا بلکہ کوئی ہمارے کسی داغ کا نام لے لے تو ہم اس کے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں لیکن دوسروں کی صاف اور ستھری زندگیاں بھی ہمیں گندی نظر آتی ہیں اور ان کو بات بات پر نشانہ بناتے رہتے ہیں ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو وہ قتل خطا کی بات بار بار کھٹکتی ہے اور جب نبوت و رسالت جیسا پاک منصب اللہ رب العزت نے عطا کردیا تو آپ کا یہ کھٹکا مزید بڑھ گیا اور بارگاہ خداوندی میں عرض کرنے لگے اے میرے پروردگار ! مجھے خوف ہے کہ وہ کہیں مجھے قتل ہی نہ کردیں اور یہ بھی کہ وہ میری تکذیب کریں گے اور مجھ کو جھٹلائیں گے ، یہ منصب عالی جب تو نے مجھے عطا فرمایا ہے تو میرے سینہ کو فراخ کر دے اور اس اہم خدمت کو میرے لئے آسان فرما دے اور میری زبان میں یہ پڑی ہوئی گرہ کھول دے تاکہ میں واضح طور پر مکمل کر ان سے بات کرسکوں اس دعا کی تفصیل پیچھے سورة طہ میں گزر چکی ہے اور اے میرے پروردگار ! تو جانتا ہے کہ ہارون میرا بھائی مجھ سے زیادہ فصیح ہے کہ اس کو اس طرح کا کوئی کھٹکا نہیں ہے بلکہ وہی تو ہے جس نے میرے اس قتل خطاء کے معاملہ کو بھی صاف کرایا تھا کہ وہ میرا بھائی ہے ‘ بڑا ہے ‘ برداشت رکھتا ہے اگر تو اس کو بھی اس منصب میں میرے ساتھ ملا دے اور یہ منصب تو اس کو بھی عطا فرما دے تو ہم ایک ایک اور دو گیارہ ہوجائیں گے ۔ بات تو جو موسیٰ (علیہ السلام) نے کی وہ بالکل صاف اور واضح تھی لیکن جن کی اپنی کالی ہنڈیاں ہیں ان کو موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ بات سمجھ میں نہ آئی اور انہوں نے زبان کی گرہ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے غیر فصیح ہونے کے لئے بیشمار دلائل گھڑے اور پھر اس کی وجوہ بیان کیں اور طرح طرح سے موسیٰ (علیہ السلام) کی بیان کردہ کمزوری کو حقیقت کا جامہ پہنانے کی کوشش کی کہ فی الحقیقت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں لکنت تھی آپ کو غصہ بھی جلد آجاتا تھا اور برداشت کی بہت کمی تھی نعوذ باللہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) میں اس طرح کی کوئی کمزوری ہو اگر کوئی شخص اپنے آپ کو حقیر ‘ ناچیز ‘ لاشی ‘ ناکارہ ‘ خادم اور اسی طرح کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو وہ لوگ حضرت العلام ‘ علامہ ‘ پروفیسر ‘ ایم اے اور فاضل السنہ ‘ صدر الافاضل ‘ صدر المدرسین ‘ شیخ القرآن ‘ شیخ الحدیث ‘ بقیۃ السلف وغیرہ کے نام تحریر کرنے کے عادی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے ناموں کے ساتھ حقیر اور خادم لکھنے والے واقعی حقیر ‘ ناچیز اور خادم ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے اس بیان کو بھی اس طرح کا سمجھیں گے اور پھر جب ان کو یہودیوں کی روایات بھی سہارا دیں گی تو وہ ان روایات کو بیان کرکے اپنی کہی ہوئی بات کو کیوں نہ سچ کر دکھائیں گے ؟ بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے نبوت و رسالت کے بار کو بہت بھاری سمجھے ہوئے عرض کی میرے بھائی کو میرا معاون و مددگار بنا دیا جائے کہ وہ میرے پیچھے میری تصدیق کرنے والا تو ہوگا اور مجھے جھٹلانے والوں کو کچھ تو جواب دے گا کہ دوسرے شخص کی صفائی اپنی صفائی کی بنسبت زیادہ آسان ہوتی ہے پھر قرآن کریم نے ثابت کیا ہے کہ بلاشبہ ہارون (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کی پشت پناہی کے لئے یہی کام سرانجام بھی دیا کہ وہ تصدیق کرنے والوں میں پیش پیش رہے اور کبھی موسیٰ (علیہ السلام) سے آگے بڑھ کر کوئی بات اور کوئی کام نہیں کیا حالانکہ آپ موسیٰ (علیہ السلام) سے عمر میں بڑے تھے ۔
Top