Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 4
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِرْعَوْنَ : فرعون عَلَا : سرکشی کر رہا تھا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں وَجَعَلَ : اور اس نے کردیا اَهْلَهَا : اس کے باشندے شِيَعًا : الگ الگ گروہ يَّسْتَضْعِفُ : کمزور کر رکھا تھا طَآئِفَةً : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے يُذَ بِّحُ : ذبح کرتا تھا اَبْنَآءَهُمْ : ان کے بیٹوں کو وَيَسْتَحْيٖ : اور زندہ چھوڑ دیتا تھا نِسَآءَهُمْ : ان کی عورتوں کو اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : مفسد (جمع)
بلاشبہ فرعون زمین میں بہت بڑھ گیا تھا ، اس نے وہاں کے لوگوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر رکھا تھا پھر ایک گروہ کو بہت ہی کمزور کردیا اس (گروہ) کے بیٹوں کو وہ ذبح کردیتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا ، بلاشبہ وہ بڑی ہی خرابی پیدا کرنے والوں میں سے تھا
فرعون کے اقتدار پر قبضہ کرنے اور پھر قبضہ قائم رکھنے کا اصل راز : 4۔ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کس حکمت کے تحت مصر میں لایا تھا اس کا خاکہ ذرا ذہن میں تازہ کرو کہ یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائیوں کے درمیان ایک خاندانی چپقلش کے نتیجہ میں بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو اٹھا کر ایک کنوئیں میں گرا دیا اور یہ واقعہ عین اس وقت معرض وجود میں آیا جب ایک تجارتی قافلہ اس راستے سے گزرنے والا تھا بھائی یوسف کو ٹھکانے لگا کر واپس آئے ادھر اس قافلہ کے سقہ نے کنوئیں میں ڈول ڈالا تاکہ پانی نکالے اور کام میں لائے اس نے جب ڈول کھینچا تو بجائے پانی کے ایک خوبرو اور خوش اخلاق بچے کو دیکھ کر وہ دنگ رہ گیا قافلہ والوں نے اس بچے کو ساتھ لیا اور مصر پہنچ کر اس کے فروخت کرنے کا اعلان کردیا یہ اعلان وہاں کی حکومت وقت نے بھی سنا اور حکومت میں ایک بہت بڑے عہدہ پر فائز عزیز مصر نے اس بچہ کو خرید لیا اور گھر لا کر بیوی کو کہا کہ اولاد تو موجود نہیں اس بچہ پر نظر ڈال اور اس کی اچھی پرورش کر اور اس سے خدمت کا کام لے بعد میں دیکھیں گے اگر ضرورت ہوئی تو اس کو اولاد قرار دے لیں گے کہ یہ اپنے نقش ونگار سے اس کا اہل ہے کہ اس کو اولاد بنا لیا جائے ، یوسف عزیز مصر کے ہاں پرورش پاتا رہا تا آنکہ مکمل جوان ہوگیا اور بجائے اس کے کہ وہ لوگ اس کو اولاد قرار دے لیتے وہ عورت جو عزیز مصر کی بیوی تھی اس کو یوسف کا حسن ایسا لگا کہ اس نے اولاد کی بجائے اس کو خاوند بنانے کی کوشش شروع کردی لیکن وہ یوسف کو اس بات پر آمادہ کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی اور اس نے اپنی ناکامی کا انتقام لیتے ہوئے یوسف کو قید کروا دیا اور یوسف (علیہ السلام) بھی ایک ایسا نوجوان تھا جس نے قید کو ناجائز خاوند بننے پر سو بار ترجیح دی اور قید میں پہنچ کر اپنے علم وفضل اور تعبیر الرؤیا میں ایک مقام حاصل کرلیا اور یوگ یوسف سے فائز یاب ہونا شروع ہوگئے یوسف نے قید سے نکلنے کی کوئی جستجو نہ کی اور نہ ہی جیل میں پہنچنے کا کوئی افسوس کیا حتی کہ فرعون وقت نے ایک خواب دیکھا اور وہ پریشان ہوا اور اس نے تعبیر کے لئے بڑے بڑے معبرین سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا لیکن کہیں سے بھی اطمینان بخش جواب نہ پایا ان حالات میں یوسف (علیہ السلام) کے ایک قید کے ساتھی نے بادشاہ سے اجازت طلب کی تاکہ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سے اس خواب کی تعبیر پوچھے بادشاہ نے اجازت دی تو وہ آدمی قید کی کو ٹھری میں پہنچا اور خواب کی تعبیر چاہی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خواب کی تعبیر اس کو بتا دی اس نے واپس جا کر بادشاہ کو جب اس کے خواب کی تعبیر بتائی جو بادشاہ کے دل کو وہ اس قدر بھائی کہ اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو حاضر کرنے کا حکم دیا ، وہ آدمی دوبارہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس گیا تاکہ یوسف (علیہ السلام) بادشاہ سے براہ راست ملاقات کرے لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس آدمی کو جواب دے دیا کہ میں اس وقت تک قید سے نکلنے کے لئے تیار نہیں جب تک میرے قضیہ کا فیصلہ نہ ہوجائے ۔ بادشاہ نے اس کے قضیہ کو حل کرایا اور وہ اس طرح کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بری قرار دے دیا گیا اور سارا الزام عزیز مصر کی بیوی پر رہا حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی بریت کے اعلان کے بعد بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا اور بالمشافہ گفتگو ہوئی ، بادشاہ اس بالمشافہ گفتگو سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے لئے خاص کرلیا اور اس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کو تمکن فی الارض عطا کردیا گیا ، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی صلاحتیوں سے کام لیتے ہوئے قحط سالی کے سالوں کے لئے اس طرح تیاری کی کہ جب قحط فی الواقع پڑگیا تو مصر دوسرے ملکوں کی آماجگاہ بن گیا اور اردگرد کے تمام ممالک مصر سے غلہ حاصل کرنے لگے اسی پریشانی کو دور کرنے کے لئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی بھی مصر میں پہنچے اور ایک دو بار غلہ حاصل کرکے لے گئے جب وہ تیسری بار مصر آئے تو ان کی کسی کمزوری کے باعث یا اتفاقیہ ان پر چوری کا الزام لگا پھر وہ جب اس الزام سے بری قرار پائے اور ان کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس وقت جو شخص غلہ دوسرے ملکوں کے ہاتھوں فروخت کررہا ہے وہ ان ہی لوگوں کا بھائی حضرت یوسف (علیہ السلام) ہے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ادھر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان کو مصر میں آکر آباد ہونے کی ہدایت کی جو منظور ہوئی اور اس طرح بنی اسرائیل گویا مصر میں آکر آباد ہوگئے اور حکومت کی باگ ڈور بھی ان ہی کے ہاتھوں میں تھی وہ کئی پشت تک مصر کے تخت پر حکمران رہے اور بڑھتے بڑھتے ایک بہت بڑی قوم بن گئے اور اپنے آباء کے نام سے بارہ گروہوں میں تقسیم ہوئے اگرچہ اس وقت یہ تقسیم ان کی محض ایک دوسرے کی پہچان کے لئے تھی پھر آہستہ آہستہ وہ کمزور ہونے شروع ہوگئے اور چونکہ فرعون اور اس کی قوم بنی اسرائیل کے آنے سے پہلے یہاں آباد تھے اس لئے انہوں نے دوبارہ کوشش کرکے زمام حکومت خود سنبھال لی اور قوم بنی اسرائیل پر مختلف طریقوں سے ظلم و ستم کرنے لگے تاکہ یہ لوگ دوبارہ کہیں اٹھ کھڑے نہ ہوں اس ظلم و ستم کی جب انہوں نے کوئی انتہاء نہ چھوڑی تو اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ سے قوم بنی اسرائیل کو دوبارہ برسراقتدار لانا چاہا اور اس زیر نظر آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ فرعون نے قوم بنی اسرائیل کو دبانے کے لئے کیا کیا چالیں اختیار کی تھیں ان کی چالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرعونی سیاست کے سارے خدوخال کو مختصر سے مختصر الفاظ میں عمدگی کے ساتھ بیان کردیا گیا اور بلاشبہ یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام وعلام الغیوب جو حکیم وخبیر بھی ہے قرآن کریم اس کا کلام ہے اور اللہ رب العزت سے کسی جابر سے جابر سے بادشاہ کے اسرار سربستہ بھی مخفی نہیں ۔ زیر نظر آیت میں بتایا گیا ہے کہ فرعون مصر کا حکمران تھا لیکن اس کے دل میں اپنی اس رعایا کے لئے جس کو قوم بنی اسرائیل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ہمدردی ‘ شفقت اور خیر خواہی کا قطعا کوئی جذبہ نہ تھا ‘ وہ ایک مغرور اور متکبر بادشاہ تھا جس کے پیش نظر اپنا ذاتی مفاد اور اپنی قوم کے ایک حصہ یعنی قبطی لوگوں ہی کا مفاد تھا جس قدر بھی تھا وہ کیا چاہتا تھا ؟ صرف اپنی حکومت کا استحکام اور اپنی شوکت وصولت کی بقاء اسی مقصد کے حصول کے لئے وہ ہر غیر قانونی اور غیر انسانی تجویذ پر عمل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ہر غیر قانونی اور غیر انسانی تجویذ پر عمل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا ، اس مقصد کے حصول کے لئے اس نے قوم بنی اسرائیل کو مستقل بارہ حصوں میں تقسیم کیا اور اس طرح اس نے گروہ بندی کر کے انکو کمزور سے کمزور تر کرنے کی ساری کوشش کی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ قوم بنی اسرائیل ایک قوم کے افراد بن کر رہیں اس نے ہر وہ حربہ اختیار کیا جس نے نتیجے میں غریب روز بروز غریب اور امیر روز بروز امیر تر سے امیر تر ہونا شروع ہوگئے اس طرح قوم بنی اسرائیل قوم کا وہ طبقہ جو کسی نہ کسی طرح مالی پوزیشن میں تھا ان کو بنی اسرائیل سے بالکل الگ کرکے انکو اپنے ساتھ ملالیا اور باقی قوم کو وہ اچھوت سمجھنے لگے اور ان کا کمزور طبقہ روز بروز کمزور ہی ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ان میں قومی تصور بھی نہ ہونے کے برابر ہوگیا اور اس طرح بنی اسرائیل ایک قوم ہونے کے باوجود مختلف گروہوں میں تقسیم ہوگئے اور بنی اسرائیل کا وہ طبقہ جن کے پاس مال و دولت کی ریل پیل تھی اس کو اس نے اس طرح انگلی پر لپیٹا کہ وہ لوگ اس کے اشاروں پر ناچنے لگے اور کمزوروں کو مزید کمزور کرنے کے لئے اس نے ان کے بچوں کو قتل کروانا شروع کردیا اور قتل کرنے کی خضواہ کوئی سی صورت تھی بہرحال ان کی افرادی قوت کم کرنے کے لئے اس نے ان کی نرینہ اولاد کو قتل کرانے کے ساتھ ساتھ نسوانی اولاد کو باقی رکھ کر اپنے کام کاج میں ان سے بیگار لینا شروع کردی اور اپنی نفسانی خواہشوں کی ہوس کا نشانہ بھی ان کو بنایا اس طرح اس نے ملک میں ایک فساد عظیم بپا کر رکھا تھا ، فرعون نے جتنی سکیمیں اس وقت قوم بنی اسرائیل کے ایک خاص طبقہ کے علاوہ باقی ساری قوم کے لئے تیار کی تھیں وہ ساری آج اس ملک عزیز کے متوسط طقبہ اور غریب عوام کے لئے رائج نظر آرہی ہیں بلکہ ان ساری سکیموں پر کچھ مزید اضافہ ہی ہوا ہے ، ساری اسکیمیں اگر گنوائیں گے تو بہت وقت لگے گا اور مضمون کو بہت وسعت دینا ہوگی تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے لیکن اتنا وقت کہاں ؟ اس کی ساری سکیموں کا نچوڑ ان تین سکیموں میں آسکتا ہے ایک یہ کہ قوم مستقل گروہ بندی میں تقسیم رہے اور دوسری یہ کہ جو لوگ کمزور ہیں وہ روز بروز کمزور تر ہوتے چلے جائیں اور تیسری یہ کہ قوم میں شرک جاری وساری رہے کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہوجائے کہ شرک کی بیخ کنی ہوجائے بلکہ شرک پھیلنے کی جو صورتیں بھی ممکن ہوں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے باقی اسکیمیں ان ہی تین بڑی اسکیموں کے گردا گرد گھومتی ہیں اور آج بھی ہمارے اس ملک عزیز میں حکمران طبقہ کی یہ تینوں اسکیمیں بدستور قائم ہیں اور ان تینوں کو برقرار رکھنے کی ہر حکومت داعی ہے اور بلاشبہ اس کے نتیجہ میں فرقہ بندی دن بدن زوروں پر ہے اور غریب طبقہ روز بروز غریب سے غریب تر اور غریب ترین ہوتا چلا جا رہا ہے اور شرک کی ساری اسکیموں کی حوصلہ افزائی بدستور جاری ہے اشارہ ہم نے کردیا ہے اور اس کی وضاحت کوئی مشکل نہیں اگر آپ خلوص نیت سے چاہیں گے تو ذرا غور وفکر کرنے سے وضاحت خود بخود ہوتی چلی جائے گی ، یہی وہ فساد تھا جو اس وقت فرعون موسیٰ نے بپا کر رکھا تھا اور یہی وہ فساد ہے جو اس وقت سارے فرعون اپنے اپنے ملکوں میں بپا کر رہے ہیں اگر کوئی فرق ہے تو صرف یہ کہ فرعون موسیٰ کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے اس لئے اس کا نام ہر جگہ لیا جاتا ہے اور خصوصا مسلمان قوم تو اس کا نام اس سلسلہ میں لینے پر مجبور ہے اور موجودہ فرعونوں کا ذکر قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ نہیں ہے اور اس زمانہ میں وہ فرقہ جو مذہبی فرقہ کہلاتا ہے وہ وقت کے فرعونوں سے اس قدر رشوت کھا رہا ہے کہ وہ ان کا نام صراحت کے ساتھ لینے کے لئے کبھی تیار نہیں لیکن اللہ رب العزت کی سکیم بھی بڑی سلجھی ہوئی ہے وہی جب چاہے گا اس کا علاج کرے گا اور ہمارا ایمان ہے کہ ضرور کرے گا کیونکہ اس کے ہاں دیر ہے کہ اس کا ایک دن ہمارے پچاس ہزار سالوں کے برابر ہے لیکن اندھیر یقینا نہیں۔
Top