Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 5
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ اَئِمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ
وَنُرِيْدُ : اور ہم چاہتے تھے اَنْ : کہ نَّمُنَّ : ہم احسان کریں عَلَي الَّذِيْنَ : ان لوگوں پر جو اسْتُضْعِفُوْا : کمزور کر دئیے گئے تھے فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں وَنَجْعَلَهُمْ : اور ہم بنائیں انہیں اَئِمَّةً : پیشوا (جمع) وَّنَجْعَلَهُمُ : اور ہم بنائیں انہیں الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور ہم نے چاہا کہ ان لوگوں پر احسان کریں جن کو ملک میں بالکل کمزور کردیا گیا تھا اور یہ کہ ان کو سردار بنا دیں اور ان کو (فرعون والوں) کا وارث بنا دیں
کمزور لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے احسان کا ارادہ کیا تو انکو ملک کا وارث بنا دیا : 5۔ یہ آیت گویا موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے لے کر فرعون کی ہلاکت تک کے سارے مضمون پر محیط ہے اور اس طرح تقریبا ایک صد سالہ زندگی کی پوری روئیداد اس میں بیان کردی گئی ہے ، فرعون اور اس کی قوم یا اس کے اعوان وانصار کی اسکیم کیا تھی ؟ یہی کہ وہ لوگ جو ملک میں کمزور ہوچکے ہیں ان کو کمزور سے کمزور بنا دیا جائے تاکہ اس بات کا خطرہ مکمل طور پر ٹل جائے کہ کبھی یہ لوگ بھی حکومت کے اہل ہو سکتے ہیں ، ادھر اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ لوگ جو اس وقت ملک کے حصہ مغرب سے لے کر مشرک تک کمزور سے کمزور تر بنا دیئے گئے ہیں اب ہمارے قانون کا فیصلہ یہ ہے کہ ملک کا وارث ان کو بنایا جائے ، اس طرح فرعون کی ساری اسکیمیں فیل کر کے رکھ دی جائیں ، اس کے لئے کیا ہوا ؟ قدرت الہی نے ان حالات کو بدلنے کے لئے فرعون کی اپنی اہلیہ کا دل اپنی طرف مائل کیا اور وہ باجود فرعون کی بیوی ہونے کے اللہ کی ایک نیک بندی بن کر رہ گئی اور سورة طہ میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ دراصل اس اللہ کی بندی کا تعلق بھی قوم موسیٰ ہی سے تھا بلکہ وہ موسیٰ کی والدہ ماجدہ کی حقیقی رشتہ دار تھیں ، فرعون نے جب بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو اپنی سکیم کے تحت مروانا چاہا تو یہ اللہ کی بندی موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے مل گئی اور اس کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تو جب بچہ کو وضع کرے تو اگر وہ نرینہ اولاد ہو تو جب تک یہ بات پوشیدہ رہ سکے اس کو پوشیدہ رکھے اور اگر خطرہ ہو کہ وہ قانون کی زد میں آئے گی تو اللہ کے حکم کے مطابق اس طرح ایک صندوقچہ تیار کرا کر بچہ اس میں رکھ کر دریا میں بہا دے اس رخ پر جس رخ سے فرعون کے محل کی طرف جانے والی نہر میں پانی گرتا ہے تاکہ بچہ محل کے قریب پہنچ جائے یہ بات طے ہوجانے کے بعد بھی اس پر عمل کرنا بلاشبہ اتنا آسان نہیں تھا اور یہ سکیم بھی بہت گہری تھی لیکن چونکہ تائید خداوندی اس کو حاصل تھی اور اللہ کے دو خاص بندوں کے درمیان وعدہ تھا موسیٰ کی والدہ محترمہ نے وہی کچھ کیا جو طے تھا جب بچہ کو دریا میں عین اس رخ پر بہا دیا گیا تو موسیٰ کی ماں کا دل یقینا دھک کر رہ گیا لیکن اللہ تعالیٰ کی باتیں ہمیشہ پوری ہوتی ہیں اور بالکل اسی طرح ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ضمانت میں طے ہوا تھا ، مضمون آگے جاری ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تدبیر نہایت احتیاط کے ساتھ شروع ہوگئی جس کا نتیجہ اپنے وقت پر وہی نکلے گا جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی ماں میں ڈالا تھا اور ان دونوں اللہ کی بندیوں میں طے ہوا تھا ۔
Top