Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 53
وَ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِهٖۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِیْنَ
وَاِذَا : اور جب يُتْلٰى عَلَيْهِمْ : پڑھا جاتا ہے ان پر (سامنے) قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اٰمَنَّا بِهٖٓ : ہم ایمان لائے اس پر اِنَّهُ : بیشک یہ الْحَقُّ : حق مِنْ رَّبِّنَآ : ہمارے رب (کیطرف) سے اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس کے پہلے ہی مُسْلِمِيْنَ : فرماں بردار
اور جب ان پر یہ ( قرآن کریم) پڑھا جاتا ہے وہ پکار اٹھتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے بلاشبہ یہ ہمارے رب کی طرف سے ہے (جو بالکل برحق ہے) ہم تو اس سے پہلے ہی فرمانبردار تھے
جن لوگوں کے دلوں میں ایمان ہے وہ قرآن کریم کو سنتے ہی ایمان لے آتے ہیں : 53۔ زیر نظر آیت میں بعض لوگون نے ایمان لانے کی خبر دی جا رہی ہے جن لوگوں نے قرآن کریم کو سنتے ہی اس کی سچائی کو قبول کرلیا اور بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے اس سچائی کو کیوں قبول کیا ؟ اس لئے کہ ان کے دلوں میں پہلے ہی ایمان ویقین کی دولت موجود تھی اور سچائی نے سچائی کو دیکھتے ہی قبول کرلیا بلاشبہ ایسے لوگ عیسائیوں میں بھی موجود تھے اور یہودیوں میں بھی تھے اگرچہ بہت کم تھے یہود کی مثال دینے کے لئے عبداللہ بن سلام ؓ کا نام گرامی لیا جاسکتا ہے اور عیسائیوں کی مثال کے لئے نجران سے آنے والے بعض وفود کا ذکر بھی گزر چکا ہے اس لئے کہ دراصل ان کی اپنی کتابوں میں نبی اعظم وآخر ﷺ کی آمد کی پیش گوئیاں موجود تھیں اس لئے انہوں نے جب نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو انہوں پیش گوئیوں کے پیش نظر قرآن کریم اور خود نبی کریم ﷺ کو اللہ کا سچا رسول مان لیا اور بعد میں انہوں نے دین اسلام کی بہت خدمت کی اور اسلام میں بہت بلند مقام حاصل کیا ، قرآن کریم نے ان کے ایمان کی خبر دیتے ہوئے جو جملہ ارشاد فرمایا کہ (آیت) ” انا کنا من قبلہ مسلمین “۔ بلاشبہ ہم تو پہلے ہی فرمانبردار تھے یہ جملہ اس بات کی صاف صراحت کرتا ہے ‘ اسلام صرف اس دین کا نام نہیں ہے جسے نبی اعظم وآخر ﷺ لے آئے ہیں اور اس طرح ” مسلم “ کی اصطلاح کا اطلاق محض رسول اللہ ﷺ کے پیروؤں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے تمام انبیاء ورسل کا دین یہی اسلام تھا اور ہر زمانے میں ان سب کے پیرو مسلمان ہی تھے لیکن تعجب ہے کہ بعض بڑے بڑے اہل علم بھی اس حقیقت کے ادراک سے عاجز رہ گئے ہیں حتی کہ اس صریح آیت کو دیکھ کر بھی ان کو اطمینان نہیں ہوا اور انہوں نے اس مقام پر رک کر قلم رکھ دیا کیونکہ ان کے اپنے بیان کے مطابق اس آیت کو دیکھ ‘ پڑھ اور سمجھ کر ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے لیکن ذرا سنبھلے تو پھر دلائل اس رخ پر بیان کرنے سے شروع کردیئے جس رخ پر پہلے چل رہے تھے کہ اکثریت کا خوف دامن گیر ہوگیا ۔ حالانکہ قرآن کریم نے صرف اس جگہ یہ اشارہ نہیں دیا بلکہ اس کی بہت وضاحت کی ہے بلکہ اس کو قرآن کریم کی دعوت کی سب سے پہلی بنیاد بتایا ہے کہ وہ جو کچھ بھی بتلانا چاہتا ہے تمام تر اس اصول پر مبنی ہے اگر اس اصل سے قطع نظر کرلی جائے تو اس کا تمام کارخانہ دعوت درہم برہم ہوجائے ، لیکن تعجب ہے کہ جس درجہ قرآن کریم نے اس اصل پر زور دیا تھا اتنا ہی زیادہ لوگوں کی نگاہوں نے اس سے اعراض کیا اور بلاشبہ آج کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کی کوئی بات بھی دنیا کی نظروں سے اس درجہ پوشیدہ نہیں ہے جس قدر کہ یہ اصل عظیم ، اگر ایک شخص ہر طرح کے خارجی اثرات سے خالی الذہن ہو کر قرآن کریم کا مطالعہ کرے اور اس کی صفات میں جا بجا اس اصل عظیم کے قطعی اور واضح اعلانات پڑھے اور پھر دنیا کی طرف نظر اٹھائے جو قرآن کریم کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں سمجھتی کہ بہت سی مذہبی گروہ بندیوں کی طرح وہ بھی ایک مذہبی گروہ بندی ہے تو یقینا وہ حیران ہو کر پکار اٹھے گا کہ یا تو اس کی نگائیں اسے دھوکا دے رہی ہیں یا دنیا ہمیشہ آنکھیوں کھولے بغیر ہی اپنے فیصلے صادر کردیا کرتی ہے ، اس حقیقت کی توضیح کے لئے ضروری ہے کہ ایک مرتبہ تفصیل کے ساتھ یہ بات واضح کردی جائے کہ جہاں تک وحی ونبوت کا یعنی دین اسلام کا تعلق ہے قرآن کریم کی دعوت کیا ہے اور وہ کس راہ کی طرف نوع انسانی کو لے جانا چاہتی ہے ؟ بلاشبہ قرآن کریم کی دعوت یہ ہے کہ دین صرف اور صرف اسلام (اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی فرمانبرداری ہے) اور اللہ کی اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے اس کے سوا کوئی دوسرا دین ہی نہیں ہو سکتا اور آغاز آفرنیش سے جو نبی بھی انسانوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے وہ یہی دین لے کر آیا ہے اور یہ کہ انبیاء ورسل (علیہم السلام) خود مسلم تھے اور اپنے پیروؤں کو انہوں نے ہمیشہ مسلم ہی بن کر رہنے کی تاکید کی ہے اور انکے وہ سب ماننے والے جنہوں نے نبوت و رسالت کو تسلیم کیا اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے آگے سرتسلیم خم کیا وہ ہر زمانے میں مسلم ہی تھے اور اس سلسلہ میں ہم پیچھے ہر مقام پر وضاحت کرتے چلے آرہے ہیں اگر وضاحت چاہتے ہوں تو سورة آل عمران کی آیت 19 کی طرف رجوع کریں جہاں اعلان کیا گیا ہے کہ ” بلاشبہ دین اللہ کے نزدیک ” اسلام “ ہی ہے “ اور پھر اس کی مزید وضاحت اسی سورت آل عمران کی آیت 85 میں اس طرح فرمائی گئی ہے کہ ” اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کا خواہش مند ہوگا تو وہ کبھی قبول نہیں کیا جائے گا ۔ “ یہ بات تو سب کو مخاطب کرکے بیان فرمائی گئی اور پھر ہر نبی ورسول (علیہ السلام) سے اس بات کا اعلان کرا دیا گیا کہ میں خود مسلم ہوں اور اسلام کی لے کر آیا ہوں چناچہ نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں : (آیت) ” ان اجری الا علی اللہ وامرت ان اکون من المسلمین “۔ (یونس : 72) ” میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلموں میں شامل ہو کر رہوں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کے متعلق ارشاد ہوتا ہے : (آیت) ” إِذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ (131) وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (132) أَمْ کُنتُمْ شُہَدَاء إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِیْ قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَـہَکَ وَإِلَـہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ (البقرہ : 131 تا 133) ” جبکہ اس کے رب نے اس سے کہا کہ مسلم (تابع فرمان) ہوجا ‘ تو اس نے کہا میں مسلم ہوگیا رب العالمین کے لئے اور اسی چیز کی وصیت کی براہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو اور یعقوب (علیہ السلام) نے بھی کہ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لئے اس دین کو پسند کیا ہے لہذا تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ۔ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب (علیہ السلام) کی وفات کا وقت آیا ؟ جبکہ اس نے اپنی اولاد سے پوچھا کس کی بندگی کرو گے تم میرے بعد ؟ انہوں نے جواب دیا ہم بندگی کریں گے آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) کے معبود کی اس کو اکیلا معبود مان کر اور ہم اسی کے مسلم ہیں ۔ (آیت) ” ما کان ابراہیم یھودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما “۔ (آل عمران : 67) ” ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھا نہ نصرانی بلکہ وہ یکسو مسلم تھا ۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واسمعیل (علیہ السلام) خود دعا مانگتے ہیں : (آیت) ” ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک “۔ (البقرہ : 28) ” اے ہمارے رب ! ہم کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو۔ “ حضرت لوط (علیہ السلام) کے قصے میں ارشاد ہوتا ہے : (آیت) ” فما وجدنا فیھا غیر بیت من المسلمین “۔ (الذاریات : 36) ” ہم نے قوم لوط کی بستی میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا “۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں : (آیت) ” توفنی مسلما والحقنی بالصلحین “۔ (یوسف : 101) ” مجھ کو مسلم ہونے کی حالت میں موت دے اور صالحوں کے ساتھ ملا۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ : (آیت) ” یقوم ان کنتم امنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین “۔ (یونس 10 : 84) ” اے میری قوم کے لوگو ! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر تم مسلم ہو ۔ “ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کا اصل دین مذہب یہودیت نہیں بلکہ اسلام تھا ، اس بات کو دوست اور دشمن سب جانتے تھے چناچہ فرعون سمندر میں ڈوبتے وقت آخری کلمہ جو کہتا ہے وہ یہ ہے : (آیت) ” امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بیہ بنوا اسرآئیل وانا من المسلمین “۔ (یونس 10 : 90) ” میں مان گیا کہ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلموں میں سے ہوں “۔ اس طرح تمام بنی اسرائیل کا دین بھی یہی اسلام تھا : (آیت) ” انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا للذین ھادوا “۔ (المائدہ 5 : 44) ” ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اس کے مطابق وہ جو مسلم تھے ان لوگوں کے معاملات کے فیصلے کرتے تھے جو یہودی ہوگئے تھے ۔ “ اور بلاشبہ یہی سلیمان (علیہ السلام) کا دین تھا چناچہ ملکہ سبا ان پر ایمان لاتے ہوئے کہتی ہے : (آیت) ” اسلمت مع سلیمان للہ رب العلیمین “۔ (النمل 27 : 44) ” میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین کے ساتھ ایمان لائی ۔ “ اور یہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے حواریوں کا بھی تھا چناچہ ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” واذ اوحیت الی الحواریین ان امنوا بی وبرسولی قالوا امنا واشھدباننا مسلمون “۔ (المائدہ 5 : 111) ” اور جب کہ میں نے حواریوں پر وحی کی کہ ایمان لاؤ مجھ پر اور میرے رسول پر تو انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلم ہیں ۔ “ علاوہ ازیں بھی آیات درج کی جاسکتی ہیں لیکن ہم طوالت کے باعث انہیں آیات پر اکتفا کرتے ہیں یہ صاحب نظر لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی غور وخوض کریں۔ قرآن کریم نے کس طرح وضاحت فرما دی کہ دین پوری انسانیت کے لئے ایک تھا اور ہر نبی ورسول نے آکر اس دین ” الاسلام “ کی طرف دعوت دی تاہم چاہے مختلف نام رکھے گئے ہوں جس طرح مختلف زبانوں میں ایک چیز کے نام مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اسی مختلف نام لینے سے اس کی حقیقت تو نہیں بدل جاتی جس طرح ایک چیز کے نام بدل جانے سے چیز نہیں بدلتی اسی طرح اگر اس کو نام کے لحاظ سے مختلف نام دیئے گئے ہوں تو اس کو جب عربی زبان میں لائیں گے تو اس کے لئے نام وہی قرار پائے گا یعنی اس کو ” الاسلام “ ہی کہا جائے گا ، دراصل جو بات ان آیات کریمات میں بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوا حقیقی دین یہودیت وموسویت یا مسیحیت یا محدیت نہیں ہے بلکہ انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعہ سے آئے ہوئے احکام خداوندی کے آگے سراطاعت جھکا دینا ہے اور یہ رویہ جہاں بھی جس بندہ خدا نے بھی جس زمانے میں اختیار کیا ہے وہ ایک ہی عالمگیر ازلی وابدی دین حق کا متبع ہے اس دین کو جن لوگوں نے ٹھیک ٹھیک شعور اور اخلاص کے ساتھ اختیار کیا ہے ان کے لئے موسیٰ کے بعد مسیح اور مسیح کے بعد محمد رسول اللہ ﷺ کو ماننا تبدیلی مذہب نہیں بلکہ حقیقی دین کے اتباع کا فطری ومنطقی تقاضا ہے وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت میں مسلم ‘ مسیح کیوقت مسلم اور محمد رسول اللہ ﷺ کے وقت میں بھی مسلم ہی کہلائیں گے اور اس طرح ایک کے بعد دوسرے کی تصدیق کرتے آنے سے حقیقت نہیں بدلتی بلکہ حقیقت ایک ہی رہتی ہے ہاں ! جن لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مانا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنے والے نبی رسول کی رسالت کو تسلیم نہ کیا تو گویا وہ اب مسلم نہ رہے اور اسی طرح جن لوگوں نے مسیح کی نبوت کے بعد محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو تسلیم نہ کیا وہ بلاشبہ محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد سے پہلے مسلم تھے لیکن اب نہ رہے لیکن نبی اعظم وآخر ﷺ پر نبوت ختم کردی گئی پھر جس نے محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کے بعد اور نبوت و رسالت کا اقرار کرلیا تو وہ ” مسلم “ اور ان کا دین ” الاسلام “ نہ رہا اگرچہ اس کو ” الاسلام “ ہی کا نام دیا جائے لیکن اسلام کی اصل حقیقت جو تھی وہ بدل گئی اس لئے اب سو بار اس کو ” الاسلام “ کا نام دیا جائے لیکن وہ حقیقت میں ” الاسلام “ نہیں ہے ، مختصر یہ کہ جب تک رسالت جاری تھی اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی توحید اور موجودہ رسول کی بشمول گزشتہ رسالتوں کے تسلیم کرنے کا نام ” الاسلام “ تھا اور اب جب نبوت و رسالت ختم کردی گئی تو اب اللہ تعالیٰ کی توحید اور گزشتہ سارے رسولوں کی رسالت کے اقرار کے ساتھ آئندہ کسی کے نبی ورسول نہ ہونے کو تسلیم کرنے کا نام ” الاسلام “ ہے اس کا خلاف کرنے والے کو ” مسلم “ یا ان کے دین کو ” الاسلام “ کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔ گویا نبوت وسالت کے شروع سے ختم ہونے تک کے درمیان جتنے نبی ورسول آئے سب کے دین کا نام ” الاسلام “ ہی رہا اور یہی قرآن کریم کا مقصود اصلی ہے ۔ لیکن افسوس کہ اس کو بہت ہی کم سمجھنے کی کوشش کی گئی ۔
Top