Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 78
قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْ١ؕ اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًا١ؕ وَ لَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ
قَالَ : کہنے لگا اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دیا گیا ہے عَلٰي عِلْمٍ : ایک علم (ہنر) سے عِنْدِيْ : میرے پاس اَوَ : کیا لَمْ يَعْلَمْ : وہ نہیں جانتا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ قَدْ اَهْلَكَ : بلاشبہ ہلاک کردیا مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنَ : سے (کتنی) الْقُرُوْنِ : جماعتیں مَنْ : جو هُوَ اَشَدُّ : وہ زیادہ سخت مِنْهُ : اس سے جو قُوَّةً : قوت میں وَّاَكْثَرُ : اور زیادہ جَمْعًا : جمعیت وَلَا يُسْئَلُ : اور نہ سوال کیا جائے گا عَنْ : سے (بابت) ذُنُوْبِهِمُ : ان کے گناہ الْمُجْرِمُوْنَ : (جمع) مجرم
قارون نے کہا کہ یہ سب کچھ تو مجھے اپنی ہنرمندی سے ملا ہے ، کیا اس کو یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ اللہ اس سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کرچکا ہے جو قوت میں بھی اس سے بڑھ کر تھیں اور جمعیت میں بھی زیادہ تھیں اور گناہگاروں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہ جائے گا ؟
موسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر سن کر قارون نے جواب دیا : 78۔ بلاشبہ قارون کے جذبہ انانیت کو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ نصیحت پسند نہ آئی اور اس نے مغرورانہ انداز میں کہا کہ موسیٰ ! میری یہ دولت و ثروت تیرے خدا کی عطا کردہ نہیں ہے یہ تو میری عقلی تجربوں اور علمی کاوشوں کا نتیجہ ہے ، میں تیری نصیحت مان کر اپنی دولت کو اس طرح برباد نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی اس کو اس طرح ضائع کرسکتا ہوں ، موسیٰ (علیہ السلام) نے قارون کی یہ بات بڑے غور سے سنی اور برابر اپنے فرض تبلیغ کو انجام دیتے اور قارون کو راہ ہدایت دکھاتے رہے ۔ قارون کے اس جواب کو سن کر جواب الجواب کے طور پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا یا موسیٰ (علیہ السلام) ہی کہہ رہے ہیں کہ اس بدقسمت نے یہ لاف زنی کرتے ہوئے یہ نہ سوچا کہ اس سے پہلے کتنے ہی اس طرح کے قارون گزر چکے ہیں جو قوت و جمعیت میں اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہوئے لیکن اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے انکو چشم زدن میں تباہ وبرباد کردیا ۔ اگر قارون ذرا توجہ دیتا تو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تا کہ جس شخص کی وساطت سے اس نے یہ خزانے اکٹھے کئے اس کا نام فرعون تھا جو آن کی آن میں غرق کردیا گیا کیا اس کے غرق ہونے سے قارون نے اتنا بھی سبق حاصل نہ کیا لیکن سبق تو ہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جن کی اپنی توجہ بھی اس طرف مبذول ہو جو خود توجہ نہیں کرتے ان کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ ہوتا ہے اور وہ دیکھ کر کبھی آہ تک نہیں بھرتے اور ہر دیکھی ان دیکھی کردیتے اور ہر سنی ان سنی ان کے اس رویہ ہی سے سمجھ لینا چاہئے کہ ان کے دن بھی گنے جا چکے ہیں ۔ ادھر اللہ رب العرت کا اعلان یہ ہے کہ ” ایسے گناہگاروں سے ان کے گناہوں کے متعلق پوچھا نہیں جائے گا ؟ “ کیونکہ جب وہ ایسے گناہگاروں کو پکڑنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو ایک دفعہ ان کو بالکل آزاد چھوڑ دیتا ہے تاکہ جو کچھ وہ کرسکتے ہیں اس میں کوئی حسرت ان کی باقی نہ رہے وہ ہر طرح کے ظلم شروع کردیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ظلم کی داستانیں زبان زد خاص وعام ہونے لگتی ہیں اور وہ بےلگام گھوڑے کی طرح دوڑنا شروع کردیتے ہیں اور اس طرح ان کی مہلت جب پوری ہوجاتی ہے تو اچانک اس طرح پکڑ لیا جاتا ہے کہ آج ان کے ظلم کی داستان بیان کرنے والے کل ان کے انجام کی داستان سننے لگتے ہیں ، قارون کو بھی جب آزاد چھوڑ دیا گیا تھا تو اس نے ظلم کرنے کی انتہا کردی اور اپنی قوم کے لوگوں کی ہرچیز بیچ کر کھا گیا اور قوم کو اس پستی میں ڈال کر خود بلندی کی طرف رواں دواں ہوتا رہا خیال رہے کہ جو لوگ قوم فروشی کرکے بڑے بنتے ہیں ان کو بڑے بنتے کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی لیکن سنت اللہ انکو کئی کئی پشتوں تک ڈھیل دیتی چلی جاتی ہے اور یہ اتنی مہلت محض اس لئے دی جاتی ہے کہ نسلا بعد نسلا ظالم جنتے رہی اور آخرت کے روز ان سارے ظالموں کو جو ایک دوسرے کے نہایت ہی گہرے رشتہ دار ہوں سب کو پکڑ کر سارے انسانوں کے سامنے بےبس کردیا جائے تو یہ عذاب ان کیلئے مزید دکھ کا باعث ہو کہ باپ ‘ بیٹا ‘ پوتا سب کے سب عذاب دوزخ میں جل رہے ہیں حالانکہ ان کے دنیوی کروفر سے کون واقف نہیں۔ قوموں کی زندگی میں ایسی مہلت عام دی جاتی ہے جس کو بہت سی آنکھیں دیکھتی ہیں اگر غور کرو گے تو آج جن قارونوں کو مہلت پر مہلت دی جا رہی ہے ان کو اپنی آنکھوں سے آپ دیکھ رہے ہیں لیکن ہمارے دیکھنے والوں کی اکثریت ایسی ہے کہ جب تک اس کا نتیجہ انکی آنکھوں سامنے نہیں آتا اس وقت تک ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ دیکھ رہے ہیں اور پھر جب نتیجہ سامنے آتا ہے تو وہ دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں اور جب نیا سین شروع ہوتا ہے تو وہ اپنی توجہ اس طرف مبذول کرلیتے ہیں اور گزشتہ کردار کو اس طرح بھول جاتے ہیں جیسے کبھی ان کی آنکھوں نے اس کو دیکھا ہی نہ تھا ، آج ہماری قوم کے سارے اخباروں کے قارئین اور ریڈیو ‘ ٹیوی کے سامعین کی یہی حالت ہے کہ وہ ایک دن کا پڑھا اور دیکھا دوسرے دن تک بالکل بھول چکے ہوتے ہیں ۔ اگر یقین نہ آئے تو آزمائش کرکے دیکھ لیں اگر آپ کو تجزیہ کرنا آتا ہے تو کسی مبصر کے دس تبصرے ‘ کسی واعظ کے دس وعظ ‘ کسی مقرر کی دس تقریریں ‘ کسی مدرس کے دس درس مسلسل سن لیں اور اسی طرح کسی صدر اور کسی وزیراعظم ‘ کسی وزیر اعلی ‘ کسی گورنر ‘ کسی وزیر ومشیر کے دس اخباری بیانات اکٹھے کرلیں اور اب ان کو مسلسل پڑھ کر دیکھیں تو آپ پر ساری روشن ہوجائے گی بات تو قارون کی ہو رہی تھی اور ہم کہاں نکل آئے ؟ کہیں بھی نکل کر نہیں گئے بات قارون کی ہو رہی تھی اور اسی سے بات قارونوں کی چھڑ گئی کیوں ؟ اس لئے کہ قارون کی بات قرآن کریم نے بیان کی تاکہ ہم وقت کے قارونوں کو اس قارون کے کردار پر رکھ کر دیکھ لیں اور ہم نے بھی یہی کچھ کیا ہے ذرا حافظہ پر زور دیں بات وہی جاری ہے جو شروع کی تھی ۔
Top