Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 80
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا١ۚ وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ : دیا گیا تھا علم وَيْلَكُمْ : افسوس تم پر ثَوَابُ اللّٰهِ : اللہ کا ثواب خَيْرٌ : بہتر لِّمَنْ : اس کے لیے جو اٰمَنَ : ایمان لایا وَ : اور عَمِلَ : اس نے عمل کیا صَالِحًا : اچھا وَلَا يُلَقّٰىهَآ : اور وہ نصیب نہیں ہوتا اِلَّا : سوائے الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے
اور جن کے پاس (صحیح) علم تھا وہ کہنے لگے ، تم پر افسوس ہے (تم نے کیا تمنا کی) جو ایمان لایا اور نیک عمل کیے اس کے لیے اللہ کے ہاں کہیں بہتر اجر ہے اور یہ (حقیقت) صبر کرنے والوں ہی پر منکشف ہوتی ہے
قوم کے اہل دانش نے ان کے چہروں سے بھانپ لیا اور ان کو مخاطب کرکے کہا : 80۔ بنی اسرائیل کے ارباب بصیرت نے ایک نظر قارون اور اس کے جتھے پر ڈالی اور پھر اپنی قوم کے لوگوں کے چہروں کو دیکھا تو ساری بات سمجھ گئے اور پھر فورا مداخلت کرتے ہوئے انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو کہا کہ خبردار ! اد دنیوی زیب وزینت پر نہ جانا اور اس کے لالچ میں کہیں گرفتار نہ ہوجانا تم نے شاید نہ دیکھا ہو یا نہ سنا ہو لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس دولت و ثروت کا انجام بد کیا ہے کہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت اور قوم کو بیچ کر اکٹھا کیا ہوا مال اور اس کا انجام کیا ہوتا ہے اور جو پیچھے ہوتا آیا ہے یقینا اس کا بھی وہی انجام ہوگا کیونکہ جہاں ناچ گانے ہوں اور شہنائیاں بجیں وہاں ایک دن زاغ وزغن اور بوم وام کا بسیرا بھی ہوتا ہے اور ان کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں افسوس ہے تمہارے لئے کہ تم نے جو قارون کے پاس مال و دولت کو دیکھ کر اس طرح کی خواہش کی کہ کاش ہمارے لئے بھی ایسا ہوتا حالانکہ اس ختم ہوجانے والے مال و دولت سے تو وہ اعمال ہزار درجہ بہتر ہیں جو اچھے اعمال ہیں کیونکہ ان کا صلہ انسان کو قیامت کے روز ہی ملے گا اور اس جگہ بھی اس کے عمل کی پذیرائی ہوگی جو شخص نیک اعمال سے محروم ہوگیا اس کے پاس چاہے ساری دنیا کی دولت ہو تو وہ یقینا کنگال کا کنگال ہے کہ جس کے پاس کوئی ایک چیز بھی نہیں یہاں تک کہ تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا اور پاؤں میں جوتا بھی نہ ہو کیونکہ وہ مکمل طور پر حکمت سے محروم ہوگیا اور بلاشبہ اس کو اس دولت اور ثروت نے اس سے محروم کردیا لیکن یہ حکمت ومؤعظت کن لوگوں کو میسر آتی ہے ، انہی کو جو صبر کرنے والے اور آخرت کی محنت و کوشش میں لگے رہنے والے ہوں اور آخرت کی طلب بھی وہ رکھتے ہوں رہی یہ بات کہ جملہ (آیت) ” ولا یلقھا الا الصابرون “۔ کس کا ہے ؟ ان لوگوں کا جن کو قرآن کریم کی اس آیت میں اولوالعلم کہا گیا ہے یا اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا تو بلاشبہ دونوں باتوں کا احتمال ہے اور پھر جن کے متعلق یہ بات کہی گئی ان کی سعادت میں کوئی شک وشبہ کی بات نہیں جملہ انکا ہوگا تو بھی اور اگر یہ جملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور تضمین بیان ہوا ہے تو بھی ۔ اس جگہ ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی موجودگی میں بنی اسرائیل کی حالت کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو تاہم ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ضرور تھے جو صحیح معنوں میں اولو العلم کہلانے والے تھے لیکن آج ہماری حالت اتنی بگڑ چکی ہے کہ ہم میں ایسا صاحب علم شاید ہی کوئی میسر آئے ہمارے ہاں کے علامہ اور حضرت العلام اور ملاناؤں کی حالت بہت مختلف ہوچکی ہے کیونکہ وہ سارے کے سارے خواہ وہ کسی گروہ اور مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہوں وہ وقت کے قارونوں کے ہی ہم نوالہ وہم پیالہ ہیں وہ کوئی بات اگر ان وقت کے قارونوں کے خلاف کریں گے تو وہی جس میں ان کی ذات کا کوئی نقصان ہورہا ہو یا ان کے مکتب فکر پر کوئی حرف آرہا ہو ان کے ہاں حق اور ناحق وہی ہے جس میں ان کو ذاتی نقصان نظر آئے بلکہ اس وقت اگر آپ غور کریں گے تو نظر آئے گا کہ خود قارون کا کردار ادا کر رہے ہیں کہ اپنے گروہ اور اپنے اپنے مکتب فکر کو فرعونوں کے ہاتھ بیچ رہے ہیں اس لئے ہم ان کو ” اولوالعلم “ نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ جہالت کے داعی ہیں لیکن وہی جس پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہو مگر ان کی جگہ نہ فرعونوں میں نہ قارونوں میں نہ ان مولاناؤں میں ہاں ! اگر کہیں گم سم پڑے ہوں تو وہ دوسری بات ہے ۔
Top