Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 82
وَ اَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْكَاَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُ١ۚ لَوْ لَاۤ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا١ؕ وَیْكَاَنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۠   ۧ
وَاَصْبَحَ : اور صبح کے وقت الَّذِيْنَ : جو لوگ تَمَنَّوْا : تمنا کرتے تھے مَكَانَهٗ : اس کا مقام بِالْاَمْسِ : کل يَقُوْلُوْنَ : کہنے لگے وَيْكَاَنَّ : ہائے شامت اللّٰهَ : اللہ يَبْسُطُ : فراخ کردیتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کے لیے چاہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيَقْدِرُ : اور تنگ کردیتا ہے لَوْلَآ : اگر نہ اَنْ : یہ کہ مَّنَّ اللّٰهُ : احسان کرتا اللہ عَلَيْنَا : ہم پر لَخَسَفَ بِنَا : البتہ ہمیں دھنسا دیتا وَيْكَاَنَّهٗ : ہائے شامت لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
اور وہ لوگ (جو) کل اس کے رتبے کی تمنا کرتے تھے وہ صبح کہنے لگے کہ اللہ محفوظ رکھے وہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تنگی میں مبتلا کردیتا ہے اگر اللہ کا ہم پر احسان نہ ہوتا تو وہ ہم کو بھی دھنسا دیتا اور اللہ محفوظ رکھے کہ فلاح و کامیابی کافروں کا حصہ نہیں ہے
کل قارون کے کروفر کو دیکھ کر کچھ کہنے والے آج کیا کہہ رہے ہیں ؟ : 82۔ اس کے انجام کے بعد کیا ہوا ؟ اب وہ لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے آج کہنے لگے افسوس ہم تو بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کردیتا ہے ، گویا قارون کتنا ہی برا کیوں نہ سہی لیکن بندہ تو وہ بہرحال اللہ ہی کا تھا کیونکہ اس نے اس کو پیدا کیا تھا اور وہی اس کو رزق دینے والا تھا اور ظاہر ہوگیا کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ تعالیٰ کی مشیت کی بنا پر ہوتی ہے اور اس قانون مشیت میں اس کی کچھ دوسری ہی مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں کسی کو زیادہ رزق دینے کے معنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہت خوش ہیں اور اسے انعام دے رہا ہے اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص اللہ کا نہایت ہی مغضوب ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کو دولت کے انبار دے دیتا ہے اور پھر دیتا ہی چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر کار یہی دولت اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا باعث ٹھہرتی ہے اور اس طرح اگر کسی شخص کا رزق تنگ ہے تو اس کے معنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہے اور اسے سزا دینا چاہتا ہے اکثر اللہ کے نیک بندوں پر رزق کی تنگی رہتی ہے حالانکہ وہ فی الواقعہ نیک اور صالح انسان ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے نارض ہے اور اسے یہ سزا مل رہی ہے اس میں ایک بہت بڑی آزمائش پنہاں ہے اس ان لوگوں کے لئے بھی جو نیک اور صالح انسان ہونے کے باوجود رزق کی تنگی پاتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے بھی جو ان کے ساتھ بسے اور رہنے والے ہوتے ہیں ۔ بہرحال ان لوگوں نے جب قارون کے عذاب کا معاملہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اتنی بڑی دولت و ثروت اس کے کچھ کام نہ آئی تو وہ کہنے لگے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں اس طرح دھنسا دیا گیا ہوتا افسوس ہم کو یاد ہی نہ رہا کہ کافر کبھی فلاح نہیں پاتے اگرچہ وہ مال و دولت کی کتنی فراوانی رکھتے ہوں اور پیدا ہوتے ہی ان کے منہ میں سونے کی چمچ کیوں نہ ہو گویا وہ اس طرح کہہ رہے ہیں کہ بلاشبہ ہماری یہ غلط فہمی تھی کہ دنیوی خوشحالی اور دولت مندی ہی فلاح و کامرانی ہے اس وجہ سے ہم سمجھے بیٹھے تھے کہ قارون بڑی فلاح پا رہا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے ، ہاں ! اب معلوم ہوگیا کہ حقیقی فلاح جس چیز کا نام ہے وہ کافروں کے حصہ کی چیز نہیں ہے کیونکہ لا عیش الا العیش الاخرہ ۔
Top