Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 83
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ
تِلْكَ : یہ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ : آخرت کا گھر نَجْعَلُهَا : ہم کرتے ہیں اسے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو لَا يُرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے عُلُوًّا : برتری فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا فَسَادًا : نہ فساد وَالْعَاقِبَةُ : اور انجام (نیک) لِلْمُتَّقِيْنَ : اور انجام (نیک)
یہ آخرت کا گھر ہے (جو) ہم ان ہی لوگوں کو دیں گے جو زمین میں نہ تکبر کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ فساد کا اور (یہ بات واضح ہے کہ) آخرت تو پرہیزگاروں ہی کے لیے ہے
حقیقی فلاح صرف انہی لوگوں کا حصہ ہے جو زمین پر بڑا نہیں بننا چاہتے : 83۔ بلاشبہ آخرت کا گھر اور سرفرازی ان کے حصے میں ہی آئے گی جو اس دنیا میں (علو) کے خواہش مند نہیں کیونکہ ان کی آنکھوں میں انسانیت کی قدروقیمت ہے اور انسانیت علو کو بھی پسند نہیں کرتی اور بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ انانیت انسانیت کے لئے کبھی خوبی نہیں ہوتی کیونکہ اس کو شیطان خوبی سمجھتا ہے اور خیال رہے کہ اس دنیا میں جو بھی بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے وہ لوگوں کے حقوق پامال کرکے انکے اموال کو غصب کرکے ہی سردار بن سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سرداری اللہ کے ہاں کب پسندیدہ چیز ہو سکتی ہے اور اس وقت آپ کی قوم میں جتنے سردار بنے ہیں وہ اسی طرح بنے ہیں کہ قوم کا مال کھا گئے اور اس قدر کھا گئے اور اس طریقہ سے کھا گئے کہ اب وہ کبھی اس کو اگل نہیں سکتے اور نہ ہی ان سے اگلوایا جاسکتا ہے بظاہر وہ اتنے بڑے ہیں کہ کوئی ان میں ملک کا صدر ہے اور کوئی وزیر اعظم کوئی وزیر اعلی ہے تو کوئی گورنر اور کتنے ہیں جو ان کے وزیر ومشیر ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ اچھے منصب پر فائز ہونا ‘ زمام اقتدار سنبھال لینا معاشرہ میں کوئی معزز ومحترم مقام حاصل کرلینا ہی شاید اعزاز واکرام ہے اور اسی میں رزق اور آسائش و آرام کی فروانی ہے حالانکہ اس وقت فی زماننا یہ جتنے و ڈیرے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگ ہیں سب قوم کے غدار ہیں کیونکہ ان میں سے شاید ہی کوئی ایک ہو جو قوم کا مقروض نہیں اور پھر قرض کھا کر اس طرح ڈکار مار گئے ہیں کہ گویا وہ انکا حق تھا جو انہوں نے ہضم کرلیا ۔ فرمایا کامیابی ان لوگوں کا حصہ نہیں بلکہ کامیاب وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اس زمین میں کسی طرح کا فساد بیا نہیں کرتے نہ عقیدہ کا فساد اور نہ عمل کا فساد ہاں ! یہ لوگ جن پر اللہ کا فضل عنایات ہے وہ حال مست ہوتے ہیں قوت لایموت کو حق سمجھتے ہیں اور جو ان کو جائز طریقہ سے ملتا ہے وہ اپنا حصہ سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اگر ان کو مال دیا ہے تو وہ بےدریغ راہ خدا میں صرف کرتے ہیں اگر ان کے پاس اتنا نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئیں تو کسی طرح کا کوئی شکوہ ان کی زبان پر نہیں آتا وہ ہر حال میں امن ‘ صلح اور آشتی کے خواہش مند ہوتے ہیں اور بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا گھر مقرر کردیا گیا ہے اور یہی لوگ ہیں جن کو اسلام کی زبان میں متقین کہا جاتا ہے اور بلاشبہ یہ لوگ جنت کے وارث قرار دیئے گئے ہیں ۔
Top