Urwatul-Wusqaa - Al-Qasas : 9
وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَكَ١ؕ لَا تَقْتُلُوْهُ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
وَقَالَتِ : اور کہا امْرَاَتُ : بیوی فِرْعَوْنَ : فرعون قُرَّةُ : ٹھنڈک عَيْنٍ لِّيْ : میری آنکھوں کے لیے وَلَكَ : اور تیرے لیے لَا تَقْتُلُوْهُ : تو قتل نہ کر اسے عَسٰٓى : شاید اَنْ يَّنْفَعَنَآ : کہ نفع پہنچائے ہمیں اَوْ نَتَّخِذَهٗ : یا ہم بنالیں اسے وَلَدًا : بیٹا وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : (حقیقت حال) نہیں جانتے تھے
اور فرعون کی بی بی نے کہا کہ یہ (بچہ) تو میرے اور تمہارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، اس کو قتل نہ کرنا ہوسکتا ہے کہ یہ ہمارے کام آئے یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنا لیں اور وہ (اصل حقیقت کو) جانتے نہ تھے
بلاشبہ انہوں نے بچہ کو مارنے کی کوشش کی لیکن ہم نے اس کو ناکام کردیا : 9۔ زیر نظر آیت میں لفظ (لاتقتلوہ) اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ فرعون اور اس کے درباریوں نے یقینا موسیٰ کے قتل کرنے کے متعلق کہا تھا یا آپس میں مشورہ کیا تھا کیونکہ اتنی بات تو وہ سمجھتے تھے کہ یہ بچہ ہو نہ ہو کسی اسرائیلی ہی کا ہو سکتا ہے لیکن سیدہ آسیہ ؓ نے اپنا مشورہ فرعون کو دیا کہ نہیں اس کو قتل نہ کریں بلکہ اس سے دل بہلائیں اور اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں کہ اولاد تو موجود نہیں اور کتنا خوبصورت بچہ ہے جب ہم خود اس کی پرورش کریں گے تو ظاہر ہے کہ ایسا کوئی خدشہ نہیں رہے گا جس خدشہ کے پیش نظر بنی اسرائیل کے بچوں کو مروایا جا رہا ہے شاید کہ یہ بچہ ہمارے مفید ثابت ہو یا ہم اس کو اپنا متبنی ہی بنا لیں دراصل یہ بات تو فرعون اور اس کے درباری نہیں سمجھتے تھے کہ اصل حقیقت کیا ہے ؟ اب مضمون کو ایک بار پھر پیچھے سے شروع کیا جا رہا ہے کہ بچہ کو اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے بہا تو دیا لیکن بچہ بہرحال بچہ تھا ۔
Top