Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 32
قَالَ اِنَّ فِیْهَا لُوْطًا١ؕ قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْهَا١٘ٙ لَنُنَجِّیَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١٘ۗ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
قَالَ : ابراہیم نے کہا اِنَّ فِيْهَا : بیشک اس میں لُوْطًا : لوط قَالُوْا : وہ بولے نَحْنُ : ہم اَعْلَمُ : خوب جانتے ہیں بِمَنْ فِيْهَا : اس کو جو اس میں لَنُنَجِّيَنَّهٗ : البتہ ہم بچا لیں گے اس کو وَاَهْلَهٗٓ : اور اس کے گھر والے اِلَّا : سوا امْرَاَتَهٗ : اس کی بیوی كَانَتْ : وہ ہے مِنَ : سے الْغٰبِرِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے
ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اس میں تو لوط بھی ہیں ؟ وہ بولے کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہاں کون کون رہتا ہے ہم اس کو اور اور اس کے گھر والوں کو سوائے اس کی بیوی کے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہوگی (ہلاک کرنے آئے ہیں)
32۔ قرآن کریم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کی خوشخبری کا مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے ایک ہاجرہ کے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کی خوشخبری کا اور دوسرے اسحاق (علیہ السلام) کی خوشخبری کا ذکر کیا جو سارہ ؓ کے بطن سے پیدا ہوئے ، اس جگہ ابراہیم (علیہ السلام) کو جو بیٹے کی خوشخبری دی گئی ہے وہ کون سے بیٹے تھے دوسری جگہ اس کی وضاحت گزر چکی ہے جیسے سورة ہود میں اور خصوصا اسحاق (علیہ السلام) کی سرگزشت میں اس کا ذکر گزر چکا ہے کہ یہ اسحاق (علیہ السلام) کی خوشخبری ہے جو اسماعیل (علیہ السلام) سے تیرہ یا سولہ سال چھوٹے تھے ، بہرحال اسحاق (علیہ السلام) کی خوشخبری سنانے کے لئے بھیجے گئے اور ساتھ ان فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کی خبر بھی ابراہیم (علیہ السلام) کو سنائی اور ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری سنانے کے بعد ان کو یہ بھی بتایا کہ ہم قوم لوط کی ہلاکت کی اطلاع دینے کے لئے اب لوط (علیہ السلام) کی طرف جا رہے ہیں تو ابراہیم کو ایک طرح کا خوف محسوس ہوا تو فورا کہا کہ اس قوم میں تو لوط (علیہ السلام) بھی ہیں اگر اس بستی کی ہلاکت کا وقت آچکا ہے تو لوط (علیہ السلام) کا کیا بنے گا ؟ فرشتوں نے جواب دیا کہ بلاشبہ اس بستی میں لوط (علیہ السلام) بھی ہیں اور ہمارے علم میں ہے اور ہمارا کام ہی کیا ہے ؟ یہی کہ ہم لوط (علیہ السلام) کو متنبہ کریں گے کہ وہ اس بستی کو چھوڑ کر نکل جائیں اور اپنے لوگوں کو بھی ساتھ لے جائیں جو ان پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ اس ہلاکت سے بچ جائیں لیکن ہاں یہ بات ہمارے علم میں لائی گئی ہے کہ لوط (علیہ السلام) کی بیوی ہلاک ہونے والوں میں ہوگی کیونکہ وہ لوط (علیہ السلام) کے ساتھ وہاں سے نکلنے والی نہیں ہے اس بات میں اس کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ لوط (علیہ السلام) کی بیوی کو باوجود بیوی ہونے کے دلی لگاؤ لوط (علیہ السلام) کے ساتھ نہیں تھا اور یہی بات اس کی ہلاکت کا سبب ہوئی ۔ اس سے ہم کو یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ اگر شادی ہوجانے کے بعد میاں بیوی میں ازدواجی تعلقات کی بحالی موجود ہو اور اس کے علاوہ دلی طور پر کلی ہم آہنگی نہ بھی میسر آئے تو نباہ کرنا ہی چاہئے اور حتی المقدور فریقین کو طلاق کے متعلق سوچنا کوئی اچھی بات نہیں بلکہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اسوہ حسنہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ بہت کچھ برداشت کرکے اپنا وقت گزارتے رہے اور طلاق جیسے اقدام کی کوشش نہیں کی اور دوسرا سبق ہم کو یہ بھی ملتا ہے کہ کسی نبی ورسول سے کتنا ہی گہرا تعلق کیوں نہ ہو اگر تعلقات والے کے اپنے حالات و اعمال اچھے نہ ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے محض اس نبی ورسول کے تعلق کے باعث نہیں بچ سکتا بلکہ اس طرح کے سارے تعلقات اس دنیا کی زندگی تک محدود ہیں آخرت میں اعمال کا عوض ہی ہر شخص کو ملنا ہے خواہ وہ کوئی ہو ۔ اس لئے جو لوگ محض حسب ونسب کا لحاظ رکھتے ہوئے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہمیں یہ تعلق ہی آخرت میں کفایت کرے گا وہ محض دھوکے اور فریب میں مبتلا ہیں یہ کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے ۔ یہ تعلق خواہ کتنا ہی قریب کا کیوں نہ ہو ہرگز ہرگز مفید نہیں ہوگا جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کے بیٹے ‘ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی کا ذکر کرکے قرآن کریم نے واضح کردیا ہے لیکن افسوس کہ ہم سیکھنے والا سبق قرآن کریم سے بہت کم ہی سیکھتے ہیں ۔
Top