Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 40
فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًا١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا١ۚ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
فَكُلًّا : پس ہر ایک اَخَذْنَا : ہم نے پکڑا بِذَنْۢبِهٖ : اس کے گناہ پر فَمِنْهُمْ : تو ان میں سے مَّنْ : جو اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِ : اس پر حَاصِبًا : پتھروں کی بارش وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) اَخَذَتْهُ : اس کو پکڑا الصَّيْحَةُ : چنگھاڑ وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو خَسَفْنَا : ہم نے دھنسا دیا بِهِ : اس کو الْاَرْضَ : زمین وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ اَغْرَقْنَا : جو ہم نے غرق کردیا وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيَظْلِمَهُمْ : ظلم کرتا ان پر وَلٰكِنْ : اور لیکن (بلکہ) كَانُوْٓا : وہ تھے اَنْفُسَهُمْ : خود اپنی جانوں پر يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے
پھر ہر ایک کو ان کے گناہوں (کے باعث) ہم نے پکڑا تو ان میں سے بعض پر ہم نے ہوا کے ساتھ پتھر برسائے اور بعض وہ تھے جن کو ایک سخت چیز نے پکڑ لیا اور ان میں سے کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو دریا میں غرق کیا ، اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا یہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم ڈھاتے رہے تھے (اپنے ظلم کی پاداش میں وہ پکڑے گئے)
ان میں سے ہر ایک اپنے وقت پر پکڑا گیا کیونکہ وہ خود ہی اپنے پر ظلم کرنے والے تھے : 40۔ بلاشبہ ان قوموں کو اور ان قوموں کے ان مذکورہ سرغنوں کو پکڑ لیا گیا جو وقت ہم نے ان کو پکڑنے کے لئے رکھا تھا اگرچہ ان کی پکڑ کے مختلف طریقے رکھے گئے تھے کیونکہ ان کے گناہوں کی نوعیت مختلف قسم کی تھی بعض پر ہم نے تیز وتند ہوا بھیجی جس کے اندر پتھر اور کنکر بھی تھے کسی کو ایک نہایت ہی سخت قسم کی مہیب آواز نے آلیا کہ ان کو سرگرداں کرکے بھسم کردیا ‘ کسی کو زمین میں دھنسا دیا گیا یعنی ایسا ذلیل و خوار کیا کہ اس کی دولت اس کی رسوائی سے ذرا بھی بچا نہ سکی جیسے قارون کا ذکر کرکے دوسری جگہ بات واضح کردی اور بعض کو پانی میں غرق کردیا گیا جیسا کہ فرعون کے واقعہ میں وضاحت موجود ہے لیکن ان سب کو جو کچھ پیش آیا وہ ان کا اپنا ہی کیا دھرا تھا ان پر ہم نے ظلم نہیں کیا تھا وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے اور بلاشبہ ظلم کی نسبت کسی حال میں بھی خالق حقیقی کی طرف جائز نہیں بلکہ ہمیشہ انسان خود ہی اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو رحمت ہر وقت انسان پر منڈلاتی رہتی ہے اور وہ بلاشبہ اسی کے سہارے زندہ ہے غور کرو کہ اللہ رب العزت کی مخلوقت کردہ چیزوں سے فائدہ حاصل کرنا اور پھر اس کی مخلوق کو مخلوق قرار نہ دینا کتنا بڑا ظلم ہے اور یہ ظلم وہ طبقہ کر رہا ہے جو اس کائنات میں سب سے زیادہ ترقی پذیر متصور ہوتا ہے ایک طرف اس طبقہ کی یہ ترقی اور دوسری طرف اپنی جانوں پر اتنا بڑا ظلم ‘ اگر اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے قانون امہال کا اعلان نہ کردیا ہوتا تو نہ یہ سائنس دان طبقہ موجود ہوتا اور نہ ہی ان کی یہ ساری ایجادات ظہور میں آتیں ۔ کمال ہے اس احسن الخالقین کا جس نے یہ بھان متی کا سوانگ رچایا اور اپنی مخلوق کو اس طرح کی جسارت کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی جس طرح کی جسارت یہ طبقہ کر رہا ہے اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اس ناظم اعلی اور خالق مطلق سے مسلسل انکار کئے جا رہا ہے ۔
Top