Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 49
بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ١ؕ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ
بَلْ هُوَ : بلکہ وہ (یہ) اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ : واضح آیتیں فِيْ صُدُوْرِ : سینوں میں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ ۭ : علم دیا گیا وَمَا يَجْحَدُ : اور نہیں انکار کرتے بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیتوں کا اِلَّا : مگر (صرف) الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ( انھیں کریم کی) منور آیتیں ہیں جو ان کے سینوں میں (محفوظ) ہیں جن کو علم عطا ہوا ہے اور ہماری آیتوں سے وہی جھگڑا کرتے ہیں جو ظالم ہیں (حقیقت کو جھٹلانے والے)
قرآن کریم کیا ہے ؟ وہ روشن دلائل ہیں جو صاحب علم لوگوں کے دلوں میں محفوظ ہیں : 49۔ گزشتہ دو آیتوں میں تین نشانات معاصرین کے سامنے پیش کئے گئے تھے ایک وہ کتاب جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ‘ دوسرا محمد رسول اللہ ﷺ کا ناخواندہ ہونا اور تیسرا لکھ نہ سکنا جس کا مجموعہ خود محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات تھی ۔ اب ان تینوں نشانات پر ان لوگوں کی شہادت قائم کی جا رہی ہے جو اس وقت وہاں موجود تھے اور اپنے زمانے میں صاحب علم کہلاتے تھے اور جن کو اس وقت کا ایک زمانہ جانتا اور مانتا تھا وہ بلاشبہ محمد رسول اللہ ﷺ کے مخالفین ومعاندین تھے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہی لوگوں کو مخاطب کیا اور انہیں لوگوں کو نشانات الہی کا خزانہ قرار دیا کہ اس کے نشانات تم کو تمہارے دور ہی سے مہیا کئے جاسکتے ہیں اور تم خود اس بات کی زندہ وجاوید شہادت موجود ہے وہ کیا ہے ؟ وہ یہی ہے کہ اگر تم انسانیت کے حامل ہو تو یا محمد رسول اللہ ﷺ کا خواندہ ہونا اور لکھنا جاننا ثابت کرو اگر تم ان باتوں کو ثابت نہ کرسکو تو کسی ناخواندہ کو اور لکھنا نہ جاننے والے کو آن کی آن میں خواندہ اور دائیں ہاتھ سے لکھنے والا بنا کر دکھا دو اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو پھر اپنے دل ہی سے پوچھ لو کہ تم اس زبردست نشان کو جو تمہارے دلوں کی تہہ میں موجود ہے جھٹلا رہے ہو یا نہیں کہ ہمارا منتخب کردہ رسول محمد رسول اللہ ﷺ کل تک تو ایک ناخواندہ اور نہ لکھنے والا تھا اور آج وہ خواندہ اور لکھنے والا کیونکر ہوگیا اور وہ تمہارے سامنے جو کلام پڑھ رہا ہے وہ اس کا کلام کیونکر ثابت ہوگیا جب کہ تم سارے پڑھے لکھوں کو جمع کردیا جائے تو بھی ایسا کلام بنا کر نہیں لاسکتے ۔ یہ ہماری نشانیاں ہیں جو نشانیاں ہیں جو تمہارے دلوں کے اندر موجود ہیں اور پھر جو اتنی واضح نشانیوں کو تسلیم نہ کریں وہ کون ہیں ؟ ظالم ہی تو ہیں اور بلاشبہ وہ سارے ظالم ہیں جو قرآن کریم کے ان نشانات کو بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جو ان کے اپنے دلوں کے اندر موجود ہیں یا تو ان نشانات کا انکار کرو اور تم کہہ دو کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کو نہیں جانتے اور ہمارے اندر یہ نہیں رہا اگر تم اس کا انکار نہیں کرسکتے تو تم یہ بھی جانتے ہو کہ اس نے نہ تو کسی سے پڑھنا سیکھا ہے اور نہ لکھنا اور زندگی کا ایک کثیر حصہ وہ تمہارے اندر تمہارے ساتھ رہا ہے اگر اس نے کوئی سفر کیا ہے تو تم ساتھ تھے ‘ کہیں رات گزاری ہے تو تم ساتھ تھے ‘ کہیں دن گزارے ہیں تو تم ساتھ تھے اور اسی طرح کرتے کرتے چالیس سال اس کی زندگی کے گزر گئے ، اور اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ تمہارے دلوں کے اندر موجود ہے اس کے باوجود اگر تم اپنی ضد پر قائم ہو تو پھر اپنے ظالم کا اقرار کرلو ہاں ! اگر اس سے بھاگ کر جانے کا راستہ تمہارے پاس ہے تو ہم پر واضح کرو ! بلاشبہ یہ بات اتنے پتے کی تھی جس کا انکار اس کے اختیار میں نہیں تھا کیونکہ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس موجود نہ تھی اس لئے زور دے کر ان کو کہا گیا کہ جس قرآن کریم کا تم انکار کر رہے ہو اس کا انکار تو تمہارے لئے ممکن ہی نہ تھا کیونکہ اس کا اقرار تو تمہارے دلوں کی تہوں کے اندر محفوظ ہے جس کے لئے باہر سے دلیل دینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں اس کو کہتے ہیں کہ جادو وہ جو سر چڑھ بولے ۔ اس لئے یہ ایک ایسی دلیل ہے جو خود بول بول کر اپنے دلیل ہونے کا اعلان کر رہی ہے اور پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ آؤ اگر ہمت ہے تو مجھے ٹھکرا دو ، ہٹ دھرمی اور ضد سے نہیں کسی دلیل سے ‘ اگر تم ٹھکرا سکتے ہو ۔ پھر تعجب ہے کہ جس دلیل کے لئے معاصرین و مخالفین کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور ان کی زبانیں گنگ ہوگئی ہیں جو کچھ بول نہیں سکتیں اسی دلیل کو ہمارا مولوی ماننے کے لئے تیار نہیں ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ اس نے اعلان کردیا ہے کہ دین میں عقل کو دخل نہیں کہ اس میں دھونس اور دھاندلی چلتی ہے اور اکثریت کے بل پر وہ دھونس اور دھاندلی ہی سے اپنا کام چلاتا ہے اور یہی اس کے لئے سو دلیلوں کی ایک دلیل ہے ۔
Top