Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 60
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا١ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ١ۖ٘ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَكَاَيِّنْ : اور بہت سے مِّنْ دَآبَّةٍ : جانور جو لَّا تَحْمِلُ : نہیں اٹھاتے رِزْقَهَا : اپنی روزی اَللّٰهُ : اللہ يَرْزُقُهَا : انہیں روزی دیتا ہے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں بھی وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور (غور کرو) کتنے جانور ہیں جو اپنی روزی اٹھائے نہیں پھرتے ، اور اللہ ہی ان کو رزق دیتا ہے اور تم کو بھی اور وہی سننے والا جاننے والا ہے
کتنے چلنے پھرنے والے ہیں کہ اپنا رزق وہ اٹھائے نہیں پھرتے : 60۔ لہو ولعب کے جتنے دنیا میں پائے گئے ہیں ان سب میں اولیت مال کو ہے ۔ لھو کے اصل معنی غفلت کے ہیں ۔ عربی زبان میں یہ لفظ اس شغل کے لئے بولا جاتا ہے جس سے آدمی کو دلچسپی اتنی بڑھ جائے کہ وہ اس میں منہمک ہو کر دوسری تمام چیزوں سے غافل ہوجائے اور بلاشبہ مال کا شغل اتنا زبردست ہے کہ اس کے آنے اور ملنے کی امید پر انسان ساری دلچسپیوں کو بھول جاتا ہے اور اس کی ایسی دھن اس پر سوار ہوتی ہے جو ہر طرف سے اس کو غافل کردیتی ہے لیکن انسان کو کبھی بھول کر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ اللہ تعالیٰ کی ان گنت ایسی مخلوق ہے جس کو اس طرح کی کوئی دھن نہیں لیکن کھانے کو اس کو بھی ملتا ہے اور اس کی زندگی بھی بلاشبہ گزر رہی ہے انسان جس کی جسامت کا وزن من سوا من سے لے کر دیڑھ دو من تک عام ہے اور اس سے زیادہ بہت شاذ اور اس کی جسامت سے کئی گنا جسیم جانور موجود ہیں ایسے بھی ہیں جو چارہ کھانے والے ہیں اور ایسے بھی جو صرف گوشت کھانے والے ہیں لیکن ان سب کا وقت اللہ تعالیٰ گزارتا ہے ہے ۔ سردی آتی ہے اور گرمی بھی گزرتی ہے ‘ بارش بھی ہوتی ہے اور دوسری آسمانی بلیات بھی لیکن ان کو کبھی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی اور انسانوں میں بھی اگرچہ بہت ہی کم سہی لیکن ایسے لوگ موجود ہیں جن کو اس طرح کی فکر شدت سے لاحق نہیں ہوتی لیکن اس کے مقابلے میں ایسے کتنے انسان ہیں جن کی دولت کا حساب ان کے پاس موجود نہیں لیکن ہوس مال ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اور ان کا پیٹ ہے کہ بھرا ہی نہیں جاتا ۔ بہرحال زیر نظر آیت میں سارے انسانوں کو مخاطب کرکے کہا جا رہا ہے کہ اس دھرتی پر کتنے چلنے پھرنے والے ہیں کہ وہ اپنا رزق انسانوں کی طرح اٹھائے نہیں پھرتے اگر اللہ ان کا رازق ہے تو بلاریب تمہارا بھی رازق ہے وہ سب کی شکایت کو سنتا ہے اور سب کی ضروریات کا علم رکھتا ہے ۔ اس لئے انسان کو ہر وقت مال ہی کی فکر میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے بلکہ اس دنیوی مال سے زیادہ اس کو آخرت کی فکر لازم ہے اگر وہ انسان ہے اور اس سے بڑھ کر مسلمان بھی ہے تو دنیا کی حقیقت تو اس کی نظر میں اتنی نہیں ہونی چاہئے جتنی کہ آخرت کی کیونکہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ زندگی ہے اور اس کے مقابلہ میں آخرت کی زندگی ابدی اور ہمیشگی کی ہے لیکن کبھی اس نے موازنہ کرکے بھی دیکھا کہ اس دنیوی زندگی کے لئے جو وہ بھاگ دوڑ کرتا ہے وہ کتنی ہے اور آخرت کی فکر اس کو کس قدر دامن گیر ہے پھر انسان کے سوا اس دنیا میں جتنی مخلوق ہے اس ساری مخلوق کی زندگی جو کچھ ہے وہ اس دنیا کی زندگی ہے آخرت کا وہاں کوئی تصور ہی نہیں پھر جس کی زندگی فقط دنیا کی زندگی ہے اس کی اتنی بےفکری اور جس کی زندگی سے وہ کتنا غافل ہے ۔ ذرا غور کرو کہ یہ عقل مندی ہے یا سراسر بےعقلی کی بات ہے ۔ اس لئے لازم ہے کہ اگر انسان کو ایک جگہ خطرہ ایمان ہو تو وہ اس جگہ کو چھوڑ کر ایسی جگہ کو اپنا مسکن بنائے جہاں ایمان کا خطرہ باقی نہ رہے یا کم ہوجائے ، یہی نظریہ تھا جس نے مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کرکے کبھی حبش میں رہائش پذیر ہونے پر مجبور کیا اور کبھی وہ مکہ سے مدینہ النبی کی طرف ہجرت کرنے لگے اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے وہ مکہ سے نکل کھڑے ہوئے ، غور کرو کہ قدرت کا نظام معشیت بھی کتنا عجیب ہے کہ مہاجرین کو ہجرت کئے ہوئے ابھی تین چار سال ہی گزرے تھے کہ ان کو اللہ نے اتنا مال دیا کہ وہ مدینۃ النبی کے بسنے والوں سے بھی زیادہ مالدار ہوگئے اور یہ حالت اب بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ 48 ء میں ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کے پاس چار آنے کی رقم اور ایک وقت کا کھانا بھی موجود نہ تھا لیکن آج وہ اس ملک کے بسنے والوں سے بہت آگے نکل چکے ہیں لیکن انسان یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ‘ سنتا ہے اور اس کی ہوس ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتی ، قرآن کریم نے دوسری جگہ انسان کی اس حالت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ” تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ اس فکر میں تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو ۔ ہرگز نہیں عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ “ (102 : 1 تا 3) حلال و جائز معیشت کی فکر جائز لیکن ایک حد تک اور قناعت کی دولت کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہئے کھانے کو دو وقت روٹی اور سر چھپانے کے لئے مکان اللہ عطا کر دے تو اس کا شکر بجا لاتے ہوئے جائز حد تک دنیوی کاموں میں منہمک رہنا چاہئے لیکن آخرت سے غافل ہو کر نہیں بلکہ دنیوی زندگی سے زیادہ اس کی فکر رکھتے ہوئے ، خوب سن لو اور اچھی طرح یاد رکھو کہ غنا کبھی مال و دولت سے کسی کو میسر نہیں آیا غنی وہی ہے جو دل کا غنی ہے اور صبر و قناعت کی دولت ساری دولتوں سے بڑی دولت ہے اگر کسی کو میسر آئے ، خزانے بھرے ہوئے ہوں اور دل میں ہر وقت مال کا کھٹکا لگا رہے تو اس سے غنا میسر نہیں آسکتا ۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور رسل عظام (علیہ السلام) بھی آخر انسان ہی تھے وہ بادشاہ بھی تھے تو ذاتی مال ان کی ملکیت میں نہیں تھا اور فقر وفاقہ میں تھے تو بھی دل کی قناعت سے مالا مال تھے اور اس کے باوجود جتنی انسانی ضروریات ہیں وہ سب کی سب ان کو لاحق تھیں اور بلاشبہ وہ اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرتے تھے لیکن اس دنیا سے جب وہ رخصت ہوئے تو ان کے پاس دولت کا کوئی خزانہ موجود نہیں تھا جو کچھ تھا وہ بیت المال میں تھا جو قوم کا مال تھا نہ کہ ان کا ذاتی مال مگر ہاں ! جو ان میں سے کسی نے کچھ وراثت میں پایا ہو تو یہ دوسری بات ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اے اللہ ! مجھ سیاہ کار کو بھی قناعت کی دولت سے مالا مال فرما دے کہ میرا پختہ ایمان ہے کہ یہ دولت جس کو حاصل ہوگئی اس نے دولت کا کثیر حصہ پالیا ۔ (آیت) ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔ ربنا لا تحمل علینا اصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا ۔
Top