Urwatul-Wusqaa - Al-Ankaboot : 64
وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں هٰذِهِ : یہ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ : دنیا کی زندگی اِلَّا لَهْوٌ : سوائے کھیل وَّلَعِبٌ ۭ : اور کود وَاِنَّ : اور بیشک الدَّارَ الْاٰخِرَةَ : آخرت کا گھر لَھِىَ : البتہ وہی الْحَيَوَانُ ۘ : زندگی لَوْ : کاش كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہوتے
اور یہ دنیا کی زندگی کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں کھیل اور تماشا ہی تو ہے اور اصل زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے کاش ! یہ لوگ بھی سمجھتے (تو اس طرح بہک نہ جاتے)
دنیا کی زندگی کیا ہے ؟ ایک کھیل اور تماشا ‘ حقیقی زندگی تو آخرت ہی کی ہے : 64۔ ذرا غور کرو کہ یہ دنیا کی زندگی کیا ہے ؟ ایک حباب ہی تو ہے جو پانی پر تشکیل پا گیا ہے ابھی موجود ہے اور ابھی غیر موجود اور پھر گیا تو ایسا گیا کہ دوبارہ کبھی اس کی واپسی نہ ہوئی اگر زندگی ایسی ہے تو اس کی لذتوں کا کیا حال ہوگا ذرا پھر غور کرو کہ آج شہنائیاں بج رہی ہیں تو کل ماتم بھی تو ہیں پھر اس زندگی پر اس قدر فریفتہ اور اس کے مقابلہ میں آخرت کی زندگی جس کے بعد کبھی موت ہی نہیں ہوگی اس کا کبھی بھول کر بھی خیال نہیں آیا کیا آپ نے کبھی اس حقیقت پر بھی غور کیا ؟ کیا یہ کھیل اور تماشا ہی نہیں ہے کہ لمحہ بھر کے لئے بڑی رونق اور چہل پہل ہے اور دیکھنے والوں کی کافی بھیڑ اور بہت رش ہے لیکن جونہی کھیل ختم ہوا میدان خالی رہ گیا ۔ کتنا نادان ہے وہ جو اس تماشا گاہ کو اور اس محفل کو ہمیشہ کی محفل اور ہمیشہ کی رونق سمجھ بیٹھا ہے ۔ بلاشبہ یہ حال اس دنیا کا ہے جس میں آج ہم تم اور سب معاصرین رہ رہے ہیں لیکن آنے والے کل میں ہم تم اور سب معاصرین میں سے ایک بھی یہاں موجود نہیں ہوگا گویا ہم سب نے جو کھیلنا تھا وہ کھیل لیا لیکن جب ہی آنکھ بند ہوئی تو ہماری زندگی کا حساب لینے والے پہنچ گئے اور ہماری تھی ہی کیا کہ ساری کی ساری کھیل تماشا میں گزر گئی اور جس مقصد کے لئے ہم سب انسانوں کو یہاں بھیجا گیا وہ تو ہم کو کبھی بھول کر بھی یاد نہ آیا لیکن اب کیا ہوگا ۔ قرآن کریم ہم کو کہتا ہے کہ اس وقت تماشا گاہ سے دار آخرت کی طرف جانے والے کو ہوش آئے گا تو وہ پکارنے لگے گا کہ (رب ارجعونی) (23 : 99) ” اے میرے رب مجھے اس دنیا میں واپس بھیج “ کیوں ؟ اس لئے کہ میں وہاں جا کر اس تماشا میں دو بار شریک ہوجاؤں ؟ نہیں فرمایا وہ کہے گا کہ (آیت) ” لعلی اعمل صالحا فیما ترکت “۔ (23 : 100) امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا ۔ معلوم ہوا کہ ہم نے جس کو کھیل تماشا سمجھا تھا وہ تو ہماری امتحان گاہ تھی لیکن ہم نے تو اس کو کبھی بھی امتحان گاہ نہیں سمجھا لیکن یہ کہنے والے کو کہا جائے گا (آیت) ” کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا “۔ (22 : 100) ” ہرگز نہیں یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے “۔ زیر نظر آیت میں فرمایا کہ دنیا کی زندگی کی تو کچھ بھی حقیقت نہیں ہے اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جس کے بعد موت نہیں کاش کہ یہ لوگ بھی اس حقیقت کو سمجھتے ہوتے کہ جہاں اس وقت ہم کو بھیجا گیا ہے یہ گھر ہمارے لئے بالکل عارضی ہے اور اس کو آج نہیں تو کل ہم کو چھوڑ دینا ہے اور اس حباب کی مانند دوبارہ اس جگہ سے ہمارا گزر کبھی نہیں ہوگا تو شاید ان کو کھیل وتماشا نہ سمجھا جاتا یہ مضمون پیچھے نہایت تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے اس لئے یہاں زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں اگر تفصیل دیکھنا ہو تو عروۃ الوثقی جلد سوم میں سورة الانعام کی 32 ‘ الاعراف کی آیت 53 ‘ جلد چہارم سورة ابراہیم کی آیت 44 ‘ 45 ‘ جلد ششم میں سورة المومنون کی آیت 100 سے 106 تک ‘ سورة الشعراء کی آیت 102 وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں ۔
Top