Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز نہ کام آئیں گے عَنْھُمْ : ان کے اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ھُمْ : وہ وَقُوْدُ : ایندھن النَّارِ : آگ (دوزخ)
بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے انہیں اللہ کی پکڑ سے نہ تو ان کی دولت بچا سکے گی نہ آل اولاد یقینا یہی وہ لوگ ہیں کہ آتش عذاب کا ایندھن بن کر رہیں گے
کفر کی راہ اختیار کرنے والوں کو اللہ کی پکڑ سے کوئی نہیں بچا سکتا : 26: جاہل قوموں نے ایسے عقائد خود ہی گھڑ لیے ہیں جن کی کوئی اصل موجود نہیں۔ ان عقیدوں میں سے ایک عقیدہ ان کا یہ بھی ہے کہ اولاد اپنے مرے ہوئے باپ کی طرف سے کچھ ” پن دان “ کرے تو والدین کی نجات ہوجائے گی خواہ وہ ایمان کی دولت سے مالا مال نہ بھی ہوئے ہوں۔ تعجب ہے کہ اسلام نے ماں باپ کی موجودگی میں اولاد کو مجبور کیا ہے کہ وہ ان کی ضروریات زندگی کو پورا کریں اور ان کو ہر لحاظ سے خوش رکھیں اور دنیوی زندگی میں ان کی ہر طرح مدد کریں۔ مالی امداد بھی ان کو دیں اور روحانی امداد کے طور پر ان کی اصلاح کی اسی طرح کوشش کریں کہ ان کو اف تک بھی نہ کہیں اور تبلیغ کا فرض ادا کرتے ہوئے بھی نرم لہجہ اختیار کریں اور پاکیزہ گفتگو کریں اور اگر وہ کفر ہی پر مرجائیں تو ان کے لیے دعائے مغفرت سے باز رہیں اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیں۔ لیکن ہمارے ہاں کی تعلیم یہ ہے کہ زندگی میں ان سے سلام و دعا تک کو بند کردیں اور ان کی ضروریات کا ہرگز خیال نہ کریں اور ان کے کام بالکل نہ آئیں لیکن اگر ہماری موجودگی میں وفات پا جائیں تو پھر ان کی بخشش کا سامان کریں اور آئے دنوں ان کے لیے ثواب کی مجلسیں قائم کریں۔ قرآن خوانی کرائیں ، قل پڑھائیں اور ان کی قبر پر حفاظ کو بٹھا کر قرآن پڑھاتے رہیں۔ افسوس کہ یہ دین کہاں سے نکل آیا ؟ قرآن کریم تو بار بار کہتا ہے کہ مرنے والے کا عمل منقطع ہوجاتا ہے جو کچھ اس نے کرنا ہے وہ کرچکا اب اس کے کرنے کا کوئی کام نہ رہا۔ ہاں ! وہ اگرچہ وفات پا گیا لیکن اس کا کوئی زندہ عمل اگر باقی ہے تو اس کا اجروثواب بوجہ اس کے اپنے عمل ہونے کے ملتا رہے گا اور چونکہ اس کی اولاد اور اس کا مال بھی اس کا عمل ہے اگر اس کی اولاد اچھے کام کرے گی تو یقینا اس کا عمل ہونے کی وجہ سے اس کو فائدہ پہنچے گا لیکن اس میں بھی یہ بات کہ فلاں شخص اس کو اجروثاب پہنچائے تب ہی اجر مل سکتا ہے بالکل بےاصل ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ اس سورة کے مضامین کا خاص تعلق قوم عیسائیت سے ہے اس لیے اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ اپنے مالوں اور قومی جمیعت پر جس قدر فخر عیسائی قوم کو ہے شاید ہی کسی قوم کو ہوا ہو۔ خصوصاً اس لحاظ سے بھی کہ وہ انبیاء کی اولاد میں سے تھے مگر الفاظ عام ہیں اس لیے ہر قسم کے کافر خواہ پہلی امتوں کے ہوں یا بظاہر مسلمان کہلا کر کفر کرنے والے سب اس کے اندر شامل ہیں جو حقیقی اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ : 27: کفر کی راہ اختیار کرنے والوں کو اللہ کی پکڑ سے نہ تو ان کی دولت بچا سکے گی اور نہ ہی آل و اولاد “ اس سے یہ غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ جو لوگ کفر کی راہ تو اختیار نہیں کرتے لیکن دوسرے برے کام کرنے کے عادی ہیں اگرچہ وہ کافر نہ ہوں تو گویا ان کا مال یا اولاد کام آسکیں گے۔ ہرگز نہیں اور اس آیت کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی کافر اپنے کفر کے سبب اگر اتنا حد سے بڑھ گیا ہے کہ بظاہراس کو اس کے کفر سے اس وقت کوئی باز نہیں رکھ سکتا تو وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کی یہ حالت اس کو اللہ کے ذاب سے بھی بچا لے گی خواہ وہ حالت مال کی وجہ سے ہو خواہ آل و الواد کی وجہ سے۔ نہیں ، ایسا نہیں ہوسکتا یہ جو اس کو وقتی طور پر کفر کرتے دیکھ کر اللہ کی پکڑ نہیں آرہی تو یہ اس کا دراصل قانون ہے کہ وہ کسی مجرم کو جرم کرتے ہی نہیں پکڑ لیتا بلکہ اکثر اوقات اس کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اس لیے کہ اس کا قانون مشیت یہ نہیں چاہتا کہ اس کو فوراً پکڑ لیا جائے لیکن جب اس کی پکڑ کا وقت آجاتا ہے تو اس کو اس طرح دھر لیا جاتا ہے کہ نہ تو اس کو وہ طاقت ہی کچھ کام آتی ہے جو آل و اولاد کی وجہ سے تھی اور نہ ہی اس کے کام وہ خزانے اور دولت کے ڈھیر آسکتے ہیں۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَلَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْـًٔا وَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ. (آل عمران 3 : 116) ” بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی تو نہ تو مال و دولت کی طاقت انہیں عذاب الٰہی سے بچا سکے گی اور نہ آل و اولاد کی کثرت ہی ان کے کچھ کام آئے گی۔ وہ دوزخی ہیں اور ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے۔ “
Top