Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 100
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم کہا مانو گے فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دینگے تمہیں بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان كٰفِرِيْنَ : حالت کفر
اے مسلمانو ! اگر تم اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی باتوں پر کاربند ہوگئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تمہیں راہ حق سے پھرا دیں گے اور تم ایمان کے بعد کفر میں مبتلا ہوجاؤ گے
مسلمانوں کو مخاطب کیا جاتا ہے کہ تم اہل کتاب کی باتوں میں کیوں آتے ہو ؟ : 193: ” باتوں میں آنا “ ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کہ ناسمجھی کی بناء پر کسی سے دھوکہ کھا کر مسلمان اور ایسی ناسمجھی آخر کیوں ؟ مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اسلامی روشنی سے دیکھتا ہے اور اس کے مقابلہ میں ایک کافر اندھا ، بہرا اور گونگا ہوتا ہ۔ کیا نابینا بینا کو راہ دکھائے گا تم بھی عقل کے ناخن لو اور اپنی حیثیت کو سمجھو تم مسلمان ہو تم کو ان کے دھوکا میں آنا نہایت شرم کی بات ہے۔ قرآن کریم کی ہدایت جب سے وہ نازل ہوا اس وقت سے اس دنیا کے نظام کے قیام تک باقی رہنا تھیں ، اس لیے وہ صرف ان ہی لوگوں کے لیے نہ تھیں جو نزول کے وقت موجود تھے بلکہ آج بھی ہمارے لیے اسی طرح ہے جیسے آج ہی نازل ہوئی ہیں اور ہر آنے والے زمانے میں نئے آنے والوں کے لیے بھی ایسی ہی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہل کتاب اور خصوصاً یہود کی اتباع سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ حاسد لوگ ایمان و اسلام کے پکے دشمن ہیں اور عرب کی رسالت ان و ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اگر چ کفر تم سے بہت دور ہے کیونکہ تم خود ایمان کا دعویٰ رکھتے ہو تاہم تمہارا انکی چالوں میں آجانا تمہیں زیبا نہیں دیتا اگر تم ان سے دھوکا کھا گئے تو گویا تم ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس لیے کہ ان کی چال تو یہ تھی ، ہے اور رہے گی کہ تم کو تمہارے ایمان سے پھیر دیں اور اس طرح پھیریں کہ تم کو معلوم بھی نہ ہو۔ اس لیے آج تک کوئی مذہبی دھوکا باز ایسا تو نہیں آیا کہ اس نے یہ اعلان کیا ہو کہ ایمان کو چھوڑ کر کفر قبول کرلو بلکہ ہمیشہ اس نے ایمان کو کفر اور کفر کو ایمان بنانے کی کوشش کی اور اس طرح ناواقفوں کو اپنے پھندے میں پھنسا لیا۔ یہی کچھ یہودونصاریٰ کرتے آئے ہیں ، کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یاد رکھو کہ اسلام ایک ضابطہ حیات ہے وہ صرف رسم و رواج کا نام نہیں۔ اسلام ایک ایسا راہ مستقیم ہے جس پر وہ ہر مسلمان کو چلنے کی دعوت دیتا ہے اس کو خوب سمجھ رکھو۔ وہ جانتا ہے کہ ایک سچے مسلمان کی زندگی اور موت کے سارے طور طریقے اللہ کی تعالیٰ کی رضا کے لیے ہیں اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کا دیا ہے کسی اور کا نہیں وہ طلب کرتا ہے تو صرف اسی سے طلب کرتا ہے کسی اور سے نہیں۔ وہ خرچ کرتا ہے تو صرف اسی کی رضا کے لیے کسی اور کی رضا کے لیے نہیں۔ وہ اپنے اموال کا مالک خود اپن کو نہیں سمجھتا بلکہ اصل مالک اللہ ہی کو تصورکرتاے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ جو کچھ میرے پاس ہے میں صرف اس کا امین ہوں اور اس امانت کو امانت دینے والے کی رضا کے مطابق صرف کرنا ہے۔ مسلمانوں کو تنبیہ کی جارہی ہے صرف ایک ہی بار نہیں بلکہ بار بار قرآن کریم میں دہرائی گئی ہے تاکہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے چوکنے رہیں اور اپنی حیثیت کو بھول نہ جائیں۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : ” مسلمانو ! اگر تم ان لوگوں کے کہنے میں آگئے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو یاد رکھو وہ تمہیں راہ حق سے الٹے پاؤں پھرا دیں گے اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم تباہی ونامرادی میں جاگرو گے۔ تمہارا کار ساز و رفیق تو اللہ ہے مدد کرنے والوں میں اس سے بہتر مددگار کون ہو سکتا ہے ؟ “ (آل عمران 3 : 149) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہوتا ہے کہ : ” ان لوگوں کی دلی تمنا تو یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تم بھی کرلو اور تم سب ایک ہی طرح کے ہوجاؤ ۔ “ (النساء 4 : 89) کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ ایک جگہ ارشدا فرمایا : ” اگر وہ تم پر قابو پالیں تو تمہارے دشمن بن جائیں اور ہاتھ اور زبان سے تمہیں دکھ پہنچائیں کیوں ؟ لیے کہ وہ چاہتے ہیں کہ تم کسی نہ کسی طرح کافر ہوجاؤ ۔ “ (الحج 60 : 2) مزید وضاحت کے لیے عروة الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ آیت 109 ۔ 217 پر ایک نظر ڈال لیں۔
Top