Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق تُقٰتِھٖ : اس سے ڈرنا وَلَا تَمُوْتُنَّ : اور تم ہرگز نہ مرنا اِلَّا : مگر وَاَنْتُمْ : اور تم مُّسْلِمُوْنَ : مسلمان (جمع)
اے مسلمانو ! اللہ سے ڈرو ایسا ڈرنا جو واقعی ڈرنا ہے اور دیکھو دنیا سے نہ جاؤ مگر اس حالت میں کہ اسلام پر ثابت قدم ہو
مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا پہلا اصول : 197: زیر نظر آیت میں مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا پہلا اصول بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے یعنی اس کی ناپسندیدہ چیزوں سے بچنے کا مکمل اہتمام جو اللہ تعالیٰ کے حق کے مطابق ہو۔ لفظ تقویٰ اصل عربی زبان میں بچنے اور اجتناب کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔ اس کا ترجمہ ڈرنا بھی اسی مناسبت سے کیا جاتا ہے کہ جن چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہ ڈرنے ہی کی چیزیں ہوتی ہیں اور ان سے عذاب الٰہی کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس ڈرنے کی چیز یعنی تقویٰ کے بہت سے درجات ہیں جن میں سے ادنی درجہ کفرو شرک سے بچنا ہے۔ ان معنی کے لحاظ سے ہر مسلمان متقی کہا جاسکتا ہے اگرچہ رہ گناہوں میں مبتلا ہو۔ ان معنوں میں بھی قرآن کریم میں کئی جگہ لفظ متقین اور تقویٰ استعمال ہوا ہے۔ دوسرا درجہ جو اصل میں مطلوب ہے وہ ہے اس چیز سے بچنا جو اللہ تعالیٰ او اس کے رسول ﷺ کے نزدیک غیر پسندیدہ ہو۔ تقویٰ کے فضائل و برکات جو قرآن کریم اور حدیث رسول اللہ ﷺ میں آتے ہیں وہ اسی درجہ پر موعود ہیں۔ تیسرا درجہ تقویٰ کا اعلیٰ مقام ہے جو انبیاء (علیہ السلام) اور دوسرے اللہ کے خاص بندوں کو نصیب ہوتا ہے کہ اپنے قلب کو ہر غیر اللہ سے بچانا اور اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی رضاجوئی سے معمور ہونا۔ ، زیر نظر آیت کریمہ میں ” اِتَقُوا اللّٰه “ کے بعد ” حَقَّ تُقَاتِهٖ “ کے الفاظ بڑھائے گئے ہیں یعنی تقویٰ کا وہ درجہ حاصل کرو جو تقویٰ کا حق ہے۔ اس لیے اس سے یہ دیکھنا چاہیے کہ حق تقویٰ کیا ہے۔ اس کی تفسیر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حضرت ربیع ؓ حضرت قتادہ ؓ حسن بصری ﷺ نے یہ فرمائی ہے اور یہی مرفوعاً خود رسول اللہ ﷺ سے بھی منقول ہے جس کا ترجمہ اس طرح ہے کہ ” حق تقویٰ یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت ہر کام میں کی جائے ، کوئی کام طاعت کے خلاف نہ ہو اور اس کو ہمیشہ یاد رکھیں کبھی نہ بھولیں اور اس کا شکر ہمیشہ ادا کریں کبھی بھی ناشکری نہ کریں۔ “ اس مفہوم کو ائمہ تفسیر نے دوسرے عنوانات سے بھی ادا کیا ہے مثلاً بعض نے فرمایا ہے کہ ” حق تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی کی ملامت اور برائی کی پروانہ کرے اور ہمیشہ انصاف پر قائم رہے اگرچہ انصاف کرنے میں خود اپنے نفس یا پانی اولاد یا ماں باپ ہی کا نقصان ہوتا ہو “ اور بعض نے کہا کہ ” كوئی آدمی اس وقت تک حق تقویٰ ادا نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ اپنی زبان کو محفوظ نہ رکھے۔ “ قرآن کریم ہی کی ایک دوسری آیت میں اس طرح ارشاد ہوا ہے کہ : ” اِتَّقُوا اللّٰه مَا اسْتَطَعْتُمْ “ یعنی اللہ سے ڈرو جتنا تمہاری قدرت میں ہے اس پر ابن عباس ؓ اور طحاوی (رح) نے فرمایا کہ درحقیقت یہ حَقَّ تُقٰتِهٖ کی ہی تفسیر و تشریح ہے اور مطلب یہ ہے کہ معاصی اور گناہوں سے بچنے میں اپنی پوری توانائی اور طاقت صرف کر دے تو حق تقویٰ ادا ہوگیا اگر کوئی شخص اپنی پوری توانائی صرف کرنے کے بعد کسی ناجائز ہی میں مبتلا ہوگیا تو وہ حق تقویٰ کے خلاف نہیں۔ اسی آیت کے اگلے جملے میں ارشاد فرمایا : فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ جس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ درحقیقت پورا اسلام ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت اور اس کی نافرمانی سے مکمل پرہیز ہی کا نام تقویٰ ہے اور ظاہر ہے کہ اسی کو اسلام بھی کہا جاتا ہے۔ رہا حکم کہ تمہاری موت اسلام ہی پر آنی چاہیے اسلام کے سوا کسی حال پر موت نہ آنی چاہیے تو اس جگہ یہ بھی نہ کہا جائے کہ موت تو کسی آدمی کی اختیاری چیز نہیں کسی وقت اور کسی حال میں بھی آسکتی ہے چناچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ : كما تحبون تموتون وکما تموتون تحشرون یعنی ” جس حالت پر بھی تم اپنی زندگی گزار دو گے اس پر موت آئے گی اور جس حالت میں موت آئے گی اسی حالت میں حشر میں کھڑے کیے جاؤ گے۔ “ تو جو شخص اپنی پوری زندگی اسلام پر گزارنے کا پختہ عزم رکھتا ہے اور مقدور بھر اس پر عمل کرتا ہے اس کی موت انشاء اللہ العزیز اسلام ہی پر آئے گی ہاں ! بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ بعض آدمی ایسے بھی ہوں گے کہ ساری عمر اعمال صالحہ کرتے ہوئے گزر گئی آخر میں کوئی ایسا کام کر بیٹھے جس سے سارے اعمال ضبط و برباد ہوگئے تو یہ ایسے ہی لوگوں کو پیش آسکتا ہے جن کے عمل میں اول اخلاص اور پختگی نہیں ہوتی ہے۔ جو کچھ وہ کرتے نظر آتے ہیں وہ بالکل ظاہر داری ہوتی ہے اور ان کی اندرونی حالت صحیح نہیں ہوتی اگرچہ دوسروں کو معلوم نہ ہو سکے۔ مختصر یہ کہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا پہلا اصول یہی ہے کہ فرداً فرداً ہر ایک مسلم کو ذمہ داری کا احساس ہو اور اجتماع درست کرنے کے لیے افراد کا درست ہونا لازمی و ضروری۔ افراد درست ہونگے تو یقیناً ان فراد کا مل کر اجتماع جب بھی اور جسیے بھی ہوگا وہ درست ہی ہوگا۔ افرادی اکائیاں درست نہ ہوں تو ان کا اجتماع کبھی بھی درست نہیں ہو سکتا۔ اسلام اسی اصول کا داعی ہے اسی لیے اس نے اجتماع کرنے سے پہلے افراد کی حالت اور قوت ایمانی کی اصلاح کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر ایک مسلم بچا رہتا ہے۔
Top