Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 103
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا١۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاعْتَصِمُوْا : اور مضبوطی سے پکڑ لو بِحَبْلِ : رسی کو اللّٰهِ : اللہ جَمِيْعًا : سب مل کر وَّلَا : اور نہ تَفَرَّقُوْا : آپس میں پھوٹ ڈالو وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِذْ كُنْتُمْ : جب تم تھے اَعْدَآءً : دشمن (جمع) فَاَلَّفَ : تو الفت ڈال دی بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں میں فَاَصْبَحْتُمْ : تو تم ہوگئے بِنِعۡمَتِهٖۤ : اس کی نعمت سے اِخْوَانًا : بھائی بھائی وَكُنْتُمْ : اور تم تھے عَلٰي : پر شَفَا : کنارہ حُفْرَةٍ : گڑھا مِّنَ : سے (کے) النَّارِ : آگ فَاَنْقَذَكُمْ : تو تمہیں بچا لیا مِّنْھَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِھٖ : اپنی آیات لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَھْتَدُوْنَ : ہدایت پاؤ
اور یاد رکھو کہ سب مل کر اللہ کی رسّی مضبوط پکڑ لو اور گروہ گروہ نہ [ ہوجاؤ ، اللہ نے تمہیں جو نعمت عطا فرمائی ہے اس کی یاد سے غافل نہ ہو ، (ایک وقت وہ تھا) جب تمہارا حال یہ تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے لیکن اس کے خاص فضل و کرم سے تم سب بھائی بھائی بن گئے ، تمہارا حال تو یہ تھا کہ آگ سے بھری ہوئی خندق ہے اور اس کے کنارے کھڑے ہو لیکن اللہ نے تمہیں اس حالت سے نکال لیا ، اللہ اسی طرح اپنی کارفرمائیوں کی نشانیاں واضح کردیتا ہے تاکہ تم راہ پالو
مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا دوسرا اصول : 198: مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا دوسرا اصول یہ قرا دیا کہ ” سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور الگ الگ گروہوں میں تقسیم نہ ہوجاؤ ۔ “ گویا پہلے وہ اصول اور گر بتلائے جو انسانوں کو باہمی مربطو اور متفق کرنے کا نسخہ اکیسر ہے ازیں بعد آپس میں متفق ہونے کا حکم دیا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اتفاق و اتحاد ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود و مطلوب ہونے پر دنیا کے تمام انسان خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانے کے ہوں ، کی مسلک و مشرب سے تعلق رکھتے ہوں سب کا اتفاق ہے اور اس میں دو رائیں ہونے کا امکان ہی نہیں۔ دنیا میں شاید کوئی ایک انسان بھی ایسا نہ نکلے جو لڑائی جھگڑے کے بذاتہ مفید اور بہتر جانتا ہو۔ اس لیے دنیا کی ہر جماعت ہر پارٹی لوگوں کو متفق کرنے کی ہی دعوت دیتی ہے لیکن دنیا کے حالات کا تجربہ بتلاتا ہے کہ اتفاق کے مفید اور ضروری ہونے پر سب کے اتفاق کے باوجود ہو یہ رہا ہے کہ انسانیت فرقوں ، گروہوں اور پارٹیوں میں بیٹی ہوئی ہے اور روز بروز بٹتی ہی چلی جارہی ہے۔ پھر فرقہ کے اندر نئے نئے فرقے اور ہر پارٹی کے اندر نئ نئ پارٹیوں کا لامحدود سلسلہ ایسا جاری ہے کہ صحیح معنوں میں دو آدمیوں کا تفاق و اتحاد بھی ایک افسانہ بن کر رہ گیا ہے۔ وقتی اغراض کے تحت چند آدمی کسی بات پر اتفاق کرتے ہیں ، اغراض پوری ہوجائیں یا ان میں ناکامی ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ اتفاق ختم ہوجائے بلکہ افتراق اور عداوتوں کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ غور کیا جائے تو اس کا سبب یہ معلوم ہوگا کہ ہر گروہ اور ہر فرقہ بلکہ ہر شخص لوگوں کو اپے خود ساختہ پروگرام پر متحد و متفق کرنا چاہتا ہے اوجب کہ دوسرے لوگ خود اپنا اپنا بنایا ہوا کوئی نظام و پروگرام رکھتے ہوں تو وہ ان سے متفق ہونے کی بجائے ان کو اپنے پروگرام پر متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں اس لیے لازمی طور پر ہر دعوت اتحاد کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے اور وہ افتراق و انتشار ہوتا ہے۔ کرنا کیا چاہتا تھا اور ہوا کیا۔ چاہا تھا کہ اتحاد ہو لیکن نتیجہ کیا ہوا کہ مزید انتظار و افتراق ہوا اور اسی طرح اختلافات کی دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کے ہاتھ اس کے سوا کچھ نہیں آتا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اس لیے قرآن کریم نے صرف اتحاد و اتفاق اور اجتماع و تنظیم کا وعظ ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کے حاصل کرنے اور باقی رکھنے کا ایک ایسا منصفانہ اور عادلانہ اصول بھی بتلا دیا جس کے صحیح معنوں میں مان لینے سے کسی گروہ کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے وہ کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ کی انسانی دماغ یا چند انسانوں کے بنائے ہوے نظام و پروگرام کو دوسرے انسانوں پر تھوپ کر ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ پپپسب اس پر متفق ہوجائیں گے عقل و انصاف کے خلاف ہے اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہاں ! البتہ رب العالمین کا دیا ہوا نظام و پروگرام ضرور ایسی چیز ہے کہ اس پر سب انسانوں کو متفق ہونا ہی چاہیے ، کوئی عقلمند اس سے اصولاً انکار نہیں کرسکتا۔ اب اگر اختلاف کی کوئی راہ باقی رہتی ہے تو وہ صرف اس بات کو پہچاننے میں ہو سکتی ہے کہ احکم الحاکمین رب العالمین کا بھیجا ہوا نظام کیا اور کون سا ہے۔ یہودی نظام تورات کو نصاریٰ نظام انجیل کو اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا نظام اور واجب التعمیل بتلاتے ہیں یہاں تک کہ مشرکین کی مختلف جماعتیں بھی اپنی اپنی مذہبی رسوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتی ہیں۔ لیکن اول تو اگر انسان اپنے جماعتی تعصب اور آبائی تقلید سے ذرا بلند ہو کر اپی عقل خدادا سے کام لے تو یہ حقیقت بےنقاب ہو کر اس کے سامنے آجاتی ہے کہ خاتم الانبیاء ﷺ جو اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام قرآن کریم کی صورت میں لائے ہیں آج اس کے سوا کوئی نظام اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں۔ اس سے بھی قطع نظر کیجیے تو اس وقت مخاطب مسلمان ہیں جن کا اس پر ایمان ہے کہ آج قرآن کریم ہی ایک ایسا نظام حیات ہے جو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے اور چونکہ خود حق تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ لے لیا ہے اس لیے قیامت تک اس میں کسی قسم کی تغیر تحریف کا بھی امکان نہیں اس لیے سردست ہم غیر مسلم جماعتوں کی بحث کو چھوڑ کر قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں ہی سے کہتے ہیں کہ ان کے لیے تو صرف یہی لائحہ عمل ہے اگر مسلمانوں کی مختلف پارٹیاں قرآن کریم کے نظام پر متفق ہوجائیں تو ہزاروں گروہی اور نسلی اور وطنی اختلافات ایک لمحہ میں ختم ہو سکتے ہیں جو انسانیت اور خصوصا 1 اسلام کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ اب اگر مسلمانوں میں کوئی باہمی اختلاف رہے گا تو وہ صرف فہم قرآن اور تعبیر قرآن میں رہ سکتا ہے اور اگر ایسا اختلاف حدود کے اندر رہے بھی تو نہ وہ مذموم ہے اور نہ انسانوں کی اور خصوصاً مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے لیے مضر ہے بلکہ ایسا اختلاف رائے عقلاء کے درمیان رہنا فطری امر ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس اختلاف پر قابو پانا اور اس کو حدود کے اندر رکھنا کچھ دشوار نہیں بخلاف اس کے کہ قرآنی نظام سے آاد ہو کر ہماری اسلامی پارٹیاں لڑتی رہیں تو اس وقت خلاف جدال کا کوئی علاج نہیں رہتا اور اسی اختلاف و انتشار کو قرآن کریم نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے اور آج اسی قرآنی اصول کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے ہماری اس پوری ملت انتشار و افتراق میں پھنس کر برباد ہورہی ہے۔ قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں اس افتراق کو مٹانے کا نسخہ اکیسر اس طرح بتلایا ہے کہ ” سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو “ اللہ کیرسی سے مراد کیا ہے ؟ دور اول سے لے کر آج تک سب مسلمانوں میں متفق یہ کلام ہے کہ اس رسی سے مراد ” قرآن کریم “ ہے اور جتنے فرقے اور جماعتیں اس وقت اسلام کے اندر موجود ہیں کسی ایک کو بھی اس سے اختلاف نہیں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” کتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض “ یعنی کتاب اللہ ہی اللہ تعالیٰ کی وہ رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے “ اور اسی طرح زید بن ارقم کی روایت میں ” حبل اللہ ھو القرآن “ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ سارے مفسرین اسلام بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ بلاشبہ محاورہ عربی میں ” حبل “ سے مراد عہد بھی ہوتا ہے اور مطلقاً ہر وہ شے جو ذریعہ یا وسیلہ کا کام دے سکے۔ قرآن کریم کو دین اسلام میں رسی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بنا دیتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہوا کہ قرآن کریم کے اسی ایک جملہ میں حکیمانہ اصول بتلائے گئے ایک یہ کہ ہر انسان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات یعنی قرآن کریم پر مضبوطی سے عامل ہو دوسری یہ کہ سب مسلمان مل کر اس پر عمل کریں جس کا نتیجہ لازمی یہ ہوگا کہ مسلمان سب باہم متفق و متحد اور منظم ہوجائیں گے جیسے کوئی جماعت ایک رسی کو پکڑے ہوئے ہو تو پوری جماعت ایک جسم واحد بن جاتے ہیں قرآن کریم نے ایک دوسری آیت میں اس کو اور زیادہ واضح طریقے سے بیان کردیا ہے جہاں ارشاد فرمایا ہے کہ : اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَل لَھُمَّ الرَّحْمٰنُ وُدًّا (مریم 19 : 96) ” بلاشبہ جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عملوں میں لگ جائیں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت اور دوستی پیدا کردے گا۔ “ یعنی جو لوگ ایمان و عمل کی راہ اختیارکریں گے عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے لیے انسانوں کے دل کھول دے گا اور وہ قوموں اور ملکوں کے محبوب ہوجائیں گے اور یہ بھی کہ وہ دولت ایمانی کے باعث اور عمل صالح کی بناء پر اللہ تعالیٰ کی محبت کے اصل پر ایک جسم و جان ہوجائیں گے۔ پھر اس میں ایک لطیف تمثیل بھی ہے کہ مسلمان جب اللہ کی کتاب سے اعتصام کر رہے ہوں تو اس کی مثال اس حالت جیسی ہے جو کسی بلندی پر چڑھتے وقت ایک مضبوط رسی کو پکڑ لیں اور ہلاکت سے محفوظ رہیں لہٰذا اشارہ فرما دیا کہا گر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے تو کوئی شیطان بھی شرانگزیزی میں کامیاب نہ ہو سکے گا اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل تسخیر ہوجائے گی۔ قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کرلیتی ہے اور اس سے ہٹ کر ان کی قوم و اجتماعی زندگی تو تباہ ہو ہی جائے گی اور اس کے بعد انفرادی زندگی کی بھی کوئی خیر نہیں۔ اس جگہ سب سے پہلے یہ جاننا لازمی ہے کہ وحدت و اتفاق کے لیے ضروری ہے کہ اس وحدت کا کوئی خاص مرکز ہو پھر مرکز وحدت کے بارے میں اقوام عالم کی راہیں مختلف ہیں کہیں نسلی اور نسبی رشتوں کو مرکز وحدت سمجھا گیا جیسے قبائل عرب کی وحدت تھی کہ قریش ایک قوم اور بنو تمیم دوسری قوم سمجھی جاتی تھی اور کہیں رنگ کا امتیاز اس وحدت کا مرکز بن رہا تھا کہ کالے لوگ ایک قوم اور گورے دوسری قوم سمجھے جاتے تھے۔ کہیں وطنی اور لسانی وحدت کو مرکز بنایا ہوا تھا کہ ہندی ایک قوم اور عربی دوسری قوم کہیں آبائی رسم و رواج کو مرکز وحدت بنایا گیا تھا کہ جوان رسوم کے پابند ہیں وہ ایک قوم اور جوان کے پابند نہیں وہ دوسری قوم جیسے ہندوستان کے ہندو اوآریہ سماج۔ قرآن کریم نے ان سب کو چھوڑ کر مرکز وحدت ” حبل اللہ “ یعنی قرآن کریم یا دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام محکم کو قراردیا اور دو ٹوک فیصلہ کردیا کہ مؤمن ایک قوم ہیں جو ” حبل اللہ “ سے وابستہ ہے اور کافر دوسری قوم جو اس ” حبل اللہ “ سے وابستہ نہیں ” فَمِنْكُمْ کَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُؤْمِنٌ “ جغرافیائی وحدتیں ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کو مرکز وحدت بنایا جائے کیونکہ وہ وحدتیں عموماً غیر اختیاری امور ہیں جن کو کوئی انسان اپنے سعی و عمل سے حاصل نہیں کرسکتا۔ ج کالا ہے وہ گورا نہیں ہوسکتا جو قریشی ہے وہ تمیمی نہیں بن سکتا جو ہندی ہے وہ عربی نہیں بن سکتا اس لیے ایسی وحدتیں بہت ہی محدوددائرہ میں ہوسکتی ہیں ان کا دائرہ کبھی اور کہیں پوری انسانیت کو اپنی وسعت میں لے کر پوری دنیا کو ایک وحدت پر جمع کرنے کا دعویٰ کر ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے قرآن کریم نے مرکز وحدت ” حبل اللہ “ یعنی قرآن کریم یا اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کو قرار دیا جس کا اختیار کرنا اختیاری امر ہے کوئی مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا۔ گورا ہو یا کالا۔ عربی زبان بولتا ہو یا ہدی و انگریز ، کسی قبیلہ کسی خاندان کا ہو ہر شخص اس معقول اور صحیح مرکز وحدت کو اختیار کرسکتا ہے اور دنیا بھر کے پورے انسان اس مرکز وحدت پر جمع ہو کر بھائی بھائی بن سکتے ہیں اور اگر وہ آبائی رسم و رواج سے ذرا بلند ہو کر غور کریں تو ان کو اسے سوا کوئی معقول اور صحیح راہ ہی نہ ملے گی کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کو پہچانیں اور اس کا اتباع کر کے ” حبل اللہ “ کو مضبوطی سے تھام لیں جس کا نتیجہ ایک طرف یہ ہوگا کہ پوری انسانیت ایک مضبوط و مستحکم وحدت سے مربوط ہوجائے گی۔ دوسرا یہ کہ اس وحدت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کے مطابق اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح کر کے اپنی دنیوی اور دینی زندگی کو درست کرے گا یہ وہ حکیمانہ اصول ہے جس کو لے کر ایک مسلمان ساری دنیا کی اقوام کو للکار سکتا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے اس طرف آؤ اور مسلمان اس پر جتنا بھی فخر کریں بجا اور درست ہے لیکن افسوس ہے کہ یورپ والوں کی گہری سازش جو اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے صدیوں سے چل رہی ہے وہ خود اسلام کے دعویداروں میں کامیاب ہوگئی۔ اب امت اسلامی کی وحدت عربی ، مصری ، ایرانی ، افغانی ، عراقی ، افریقی ، ہندی اور سندھی میں بٹ کر پارہ پارہ ہوگئی۔ قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت ہر جگہ اور ہر ایک کو بآواز بلند یہ دعوت دے رہی ہے کہ یہ جاہلانہ امتیازات درحقیقت نہ امتیازات ہیں اور نہ ان کی بنیاد پر قائم ہونے والی وحدت کوئی معقول وحدت ہے اس لیے ” اِعْتَصَامِ بَحَبْلِ اللّٰهِ “ کی وحدت اختیارکریں جس نے ان کو پہلے بھی ساری دنیا میں غالب اور فائق اور سربلند بنایا تھا اور اب بھی اگر پھر ان کی قسمت میں کوئی خیر مقدر ہے تو وہ اس راستہ سے مل سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس آیت میں مسلمانوں کو دو ہدایتیں دی گئی ہیں اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کے پابند ہوجائیں اور دوسرے یہ کہ مل کر سب کے سب مضبوطی کے ساتھ اس کو تھام لیں تاکہ ملت اسلامی کا شیرازہ خود بخود منظم ہوجائے جیسا کہ اسلام کے قرون اولیٰ میں اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے۔ اس کے بعد تاکیداً یہ ارشاد فرمایا کہ ” وَلَا تَفَرَّقُوْا “ کہ باہم نااتفاقی نہ کرو قرآن کریم کا یہ حکیمانہ انداز ہے کہ وہ جہاں ایجابی پہلو واضح کرتا ہے وہیں سلبی پہلو سے مخالف چیزوں سے منع فرما دیتا ہے اس جگہ بھی وہی کیا اور تاکیداً ارشاد فرمایا کہ دیکھو ” گروہ گروہ نہ ہوجانا “ آج ہم نے اس حکم کی کسی طرح تعمیل کی سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس نعمت الٰہی کا ذکرجس سے سب بھائی بھائی بن گئے : 199: ارشاد ہوتا ہے کہ اس نعمت الٰہی کو یاد کرو جس نے تم سب کو بھائی بھائی بنادیا تھا وہ بھی خاص ایسے وقت میں جب کہ تم ایک دو سے کی جان کے دشمن ہوچکے تھے اور تمہارے ایک ہونے کی کوئی صورت بظاہر نظر نہ آتی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے پوری دنیا اور خصوصاً عربوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی خاندانی جنگ وجدال اتنا تھا کہ سینکڑوں سال گزر جاتے تھے جو لڑائی چھڑتی تھی بند ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھی اور پوری کی پوری قوم اس بیماری کا شکار تھی۔ جاہلیت کے زمانہ میں اوس و خزرج کے درمیان بڑی بڑی لڑائیاں ہوچکی تھیں اور ان دونوں قبیلوں میں بہت ہی سخت عداوت تھی آپس میں برابر جنگ جاری رہتی تھی۔ جب دونوں قبیلے اسلام لائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بالکل ایک ہوگئے سب حسدو بغض جاتا رہا اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار اور اللہ تعالیٰ کے دین میں ایک دسورے کے ساتھ متفق ہوگئے۔ اس نعمت الٰہی کی کیا کیا برکتیں لوگوں نے دیکھیں اس کا تذکرہ بہت وسیع ہے جو لوگ آپس میں دشمن تھے وہ کیونکر شیرو شکر ہوگئے اواسلام کے پھیلانے کا کیا انداز صحابہ نے اختیار کیا یہ داستانیں یاد رکھنے کے قابل ہیں انہیں اوس و خزرج کی داستان کو لے لو تو بات سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ چناچہ محمد بن اسحٰق اور دوسرے اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ قابل اوس و خزرج ایک ماں باپ کی اولاد تھے لیکن ایک مقتول کی وجہ سے دونوں میں دشمنی ہو گئی اور اتنی بڑھی کہ ایک سو بیس برس تک باہم جنگ ہوتی رہی آخر کار اسلام کے ذریعے اللہ نے ان کی باہمی عداوت کی آگ بجھا دی اور رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے سب میں اتفاق ہوگیا ان کے اسلام اور باہمی الفت کا آغاز اس طرح ہوا کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں ایک شخص تھا جس کا نام سوید بن صامت تھا اور قوم والے اس کو طاقتور اور نیک ہونے کی وجہ سے ” کامل “ تھے۔ سو یہ حج یا عمرہ کی غرض سے مکہ کو گیا اس وقت رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوچکی تھی اور آپ ﷺ کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم مل چکا تھا۔ آپ ﷺ نے سوید کی آمد کی خبر سنی تو اس کے پیچھے گئے اور اللہ تعالیٰ کے دین اسلام کی دعوت دی سوید نے کہا شاید تمہارے پاس ویسی ہی کوئی چیز ہے جیسی میرے پاس ہے آپ ﷺ نے فرمایا میرے سامنے لاؤ سوید نے پیش کیا یعنی پڑھ کر سنایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ اچھا ہے مگر میرے پاس جو چیز ہے وہ اس سے بھی بہت افضل ہے۔ میرے پاس قرآن کریم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نور اور ہدایت بنا کر اتارا ہے پھر آپ ﷺ نے اس کو قرآن کریم سنایا اواسلام کی دعوت دی۔ سوید نے نفرت نہیں کی اور کہنے لگا یہ اچھی چیز ہے پھر واپس مدینہ چلا گیا اور کچھ ہی مدت کے بعد جنگ بعاث میں قبیلہ خزرج نے اس کو قتل کردیا اس قوم والوں کا بیان ہے کہ مسلمان ہونے کی حالت میں اس کو قتل کیا گیا۔ اس کے بعد ابوالحسیر انس بن رافع بن اشہل کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر جس میں ایاس بن معاذ بھی شامل تھا قریش سے معاہدہ تعاون کرنے کے لیے آیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ملی تو آپ ﷺ بھی تشریف لے گئے اور ان کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا جس کام کے لیے تم آئے ہو کیا اس سے بہتر چیز کی تم کو خواہش ہے لوگوں نے کہا وہ کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا پیغمبر ہوں اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس بھیجا ہے میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک و سیہم مت بنائو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتاب بھی نازل فرمائی ہے اس کے بعد آپ ﷺ نے ان کے سامنے اسلام کا تذکرہ کیا اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا۔ ایاس بن معاذ جو ایک لڑاکا تھا کہنے لگا قوم والو ! جس کام کے لیے تم آئے ہو اللہ کی قسم یہ اس سے بہتر ہے۔ ابو الحسیر نے ایک لپ بھر کر کنکریاں اس کے منہ پر ماریں اور بولا کہ تو اپنی بات رہنے دے۔ ہم دوسری غرض سے آئے ہیں ایاس خاوش ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے او وہ لوگ بھی واپس مدینہ کو لوٹ گئے مدینہ پہنچنے کے بعد اوس و خزرج کے درمیان جنگ ہوئی اور کچھ ہی عرصہ کے بعد ایاس کا انتقال ہوگیا پھر جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس کا دین ظاہر اور رسول غالب ہوجائے تو ایک حج کے زمنانہ میں ہر سال کے معمول کے مطابق رسول اللہ ﷺ انصار مدینہ کی ایک جماعت سے ملے اور عقبہ کے پاس ایک خزرجی گروہ سے ملاقات ہوئی اس گروہ میں چھ اشخاص تھے۔ اسود بن زرارہ۔ عوف بن حارث یعنی عوف بن عفراء۔ نافع بن مالک عجلانی۔ عطیہ بن عامر۔ عقبہ بن عامر اور جابر بن عبداللہ۔ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ ان کو خیر نصیب ہو۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم کون لوگ ہو ؟ انہوں نے جواب دیا خزرجی گروہ کے آدمی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم یہودیوں کے دوستوں میں سے ہو انہوں نے کا جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم بیٹھ کر میری بات نہیں سنو گے ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ضرور سنیں گے۔ اس کے بعد سب بیٹھ گئے رسول اللہ ﷺ نے ان کو اللہ تعالیٰ کے دین کی دعو دی اور اسلام کے اصول بیان فرمائے نیز قرآن کریم بھی پڑھ کر سنایا اللہ کا احسان یہ ہوا کہ وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ انکے اسلام لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ وہ مدینہ میں یہودیوں کے ساتھ رہتے تھے یہودی اہل کتاب اور ان لوگوں کے مقابلہ میں اہل علم بھی تھے اور یہ لوگ بت پرست اور مشرک تھے۔ یہودیوں سے جب ان کا کچھ جھگڑا ، قضیہ ، مذہبی بحث و تمحیث میں ہوجاتا تھا تو یہود ان سے کہتے تھے کہ اب ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے جس کی بعثت کا زمانہ قریب آیا گیا ہے ہم اس کی اتباع کریں گے اور اس کے ساتھ ہو کر تم کو قوم عاد کی طرح قتل کریں گے۔ پس اس گروہ نے جب رسول اللہ ﷺ کا کلام اور اسلام کی دعوت کے اصول سنے تو آپس میں کہنے لگے لوگو ! تم جانتے ہو کہ یہ وہی پیغمبر ہیں جن کا نام لے کر یہودی تم کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ یاد رکھو کہ اب یہودی تم سے اس کی مدد حاصل کرنے میں سبقت نہ کرنے پائیں۔ ان سب لوگوں نے نبی کریم ﷺ کی تصدیق کی اور مسلمان ہوگئے اور عرض کی کہ ہم ایسی قوم کو چھوڑ کر آئے ہیں جن میں آپس کی جنگ اور دشمنی اتنی ہے کہ اتنی دشمنی شاید کسی دوسری قوم میں نہیں ہے۔ اب امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے ذریعہ سے ان میں اتفاق و اتحاد کرا دے۔ عنقریب ہم ان کے پاس جائیں گے اور ان کو اس بات کی دعوت دیں گے اگر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو آپ ﷺ کے معاملہ متفق کردیا تو آپ ﷺ سے بڑھ کر پھر کوئی عزت یافتہ نہ ہوگا اس کے بعد یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اپنے شہر یژب یعنی مدینہ پہنچ کر رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ کیا اور مدینہ والوں کو اسلام کی دعوت دی اس طرح سے نبی اعظم و آخر ﷺ کا ذکر مدینہ طیبہ میں اتنا پھیل گیا کہ انصار کے ہر گھر میں آپ ﷺ ہی کا چرچا ہونے لگا۔ پھر آئندہ سال ایام حج میں بارہ انصار آئے۔ سعد بن ذرار ، عوف بن عفراء ، عاذ بن عفراء ، رافع بن مالک عجلانی ، ذکر ان بن عبدالقیس عبداہ بن صامت۔ زید بن تعلبہ ، عباس بن عبادہ ، عقبہ بن عامر اور عطیہ بن عامر یہ سب لوگ خزرجی تھے اور قبیلہ اوس کے دو شخص بھی تھے ابو الہشیم بن تیہان اور عویمر بن ساعدہ ۔ عقبہ اولیٰ میں ان لوگوں کی نبی کریم ﷺ سے ملاقات ہوئی اور عورتوں کی بیعت کی شرطوں پر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی کہ وہ شرک نہیں کریں گے۔ زنا نہیں کریں گے الخ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم ان شرطوں کو پورا کرو گے تو تمہارے لیے جنت ہے اور اگر ان میں کچھ کھوٹ کرو گے تو دنیوی سزا میں گرفتار ہوجاؤ گے تو گناہ کا کفارہ ہوجائے گا لیکن اگر تمہارے جرم پر پردہ پڑا رہا تو تمہارا معاملہ اللہ کے سپرد رہے گا وہ چاہے گا تو تم کو عذا بےگا اور چاہے گا تو معاف کر دے گا۔ بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ جنگ پیش آنے سے پہلے کا ہے۔ ان لوگوں کی واپسی کے وقت رسول اللہ ﷺ نے معصب بن عمیر بن ہاشم بن عبد مناف کو ان کے ساتھ کردیا اور حکم دے دیا کہ ان لوگوں کو قرآن کریم پڑھانا اور سکھانا یعنی اسلام کی تعلیم دینا اور احکام اسلام اچھی طرح یاد کرانا مدینہ میں مصعب بن عمیر کا لقب مقری یعنی قرآن کریم پڑھانے والا ہوگیا اور اسعد بن ذرارہ کے مکان پر ان کا قیام ہوا۔ كچھ عرصہ کے بعد اسعد بن زرارہ ؓ معصب بن عمیر ؓ کو ساتھ لے کر بنی ظفر کے ایک باغ کو گئے اور اندر جاکر بیٹھ گئے اور وہاں دوسرے مسلمان بھی جمع ہوگئے۔ دوسری طرف سعد بن معاذ نے اسید بن حفیر سے کہا یہ دونوں آدمی ہمارے گھر میں آکر ” ہمارے کمزور سمجھ “ کے آدمیوں کو بہکانا چاہتے ہیں تم جاکر ذرا ان دونوں کو جھڑک کر باہر نال دو ۔ سعد بن زرارہ میرے ماموں کا بیٹا ہے اگر یہ رشتہ نہ ہوتا تو میں خود ہی یہ کام کرلیا تمہاری ضروری بھی نہ ہوتی۔ سعد بن معاذ اور اسید ، بنی اشہل کے سردار تھے اور اس وقت تک ابھی مشرک تھے۔ حسب مشورہ اسید اپنا چھوٹا نیزہ لے کر مصعب ؓ اور سعد ؓ کے پاس گیا دونوں باغ کے اندر تشریف فرما تھے۔ اسید کو دیکھ کر اسعد ؓ نھے معصب ؓ سے کہا یہ آنے والا اپنی قوم کا سردار ہے اس کو اسلام کی دعوت دو ۔ مصعب ؓ نے جواب دیا کہ اگر یہ بیٹھ جائے گا تو میں اس سے بات کروں گا۔ اسید پہنچ کر دونوں کے سامنے کھڑا ہوگیا اور گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا تم ہارے ہاں کیوں آئے ہو ؟ کیا ہمارے ” کمزور سمجھ “ والوں کو بیوقوف بنا رہے ہو اگر تم کو اپنی جان کی خیر ہے تو یہاں سے ہٹ کر چلے جاؤ ۔ مصعب ؓ نے کہا آپ بیٹھ کر ماری بات تو سن لیجیے اگر ہمایر بات آپ کو پسند آجائے تو قبول کرلینا ناپسند ہو تو چھوڑ دینا انشاء اللہ آپ کے ناگوار خاطر بات نہیں کی جائے گی۔ اسید نے کہا ہاں ! یہ بات تو تم نے ٹھیک کہی یہ کہه کر نیزہ زمین میں گاڑ کر دونوں کی طرف رخ کر کے سامنے بیٹھ گیا۔ مصعب ؓ نے اسلام کے متعلق اس سے گفتگو کی اور قرآن کریم بھی پڑھ کر سنایا۔ مصعب ؓ کا بیان ہے کہ ابھی وہ کچھ بولا بھی نہ تھا مگر ہم کو اس کے چہرے کی چمک اور بشاشت سے اسلام کے آثار نظر آنے لگے۔ قرآن کریم سننے کے بعد کہنے لگا یہ تو بڑی اچھی اور خوبصورت چیز ہے اچھا بتاؤ کہ اس مذہب میں داخ لہونے کے وقت تم کیا کرتے ہو ؟ مصعب ؓ اور اسعد ؓ نے جاب دیا غسل کرلو کپڑے پاک کرو لو پھر شہادت حق دو پھر دو رکعت نماز ادا کرو۔ اسیدنے پورا اٹھ کر اور کسی دوسری جگہ جاکر غسل کیا۔ کپڑے پاک پہنے اور کلمہ شہادت پڑھ کر کھڑا ہوا اور دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر کہنے لگا میرے پیچھے ایک آدمی اور ہے اگر اس نے بھی تمہاری بات مان لی تو اسکی قوم کا کوئی آدمی بھی تامل نہیں کرے گا وہ سعد بن معاذ ہے۔ میں ابھی اس کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں پھر اپنا نیزہ پکڑا اور چل دیا اور پانی چوپال پر آکر بیٹھ گیا۔ سعد نے پوچھا پیچھے کیا چھوڑکر آئے ہو اسید ؓ نے کہا خدا کی قسم میں نے تو ان سے کوئی جرات نہیں پائی میں نے ان کو رد کدیا تھا انہوں نے کہا جیسا آپ کو پسند ہے ہم ویسا ہی کریں گے لیکن مجھے ایک خبر ملی ہے کہ بنی حارثہ اسعد کو قتل کرنے کے درپے ہیں اور وہ اس طرف بڑھ رہے ہیں چونکہ اسعد تمہارا ماموں کا بیٹا ہے اور اس کو قتل کر کے تم سے عہد شکنی کرنی چاہتے ہیں۔ یہ بات سنتے ہی سعد غضب ناک ہوگیا اور فوراً اٹھ کھڑا ہوا نیزہ ہاتھ میں لیا اور بولا خدا کی قسم میرے خیال میں تم نے کچھ کام نہیں کیا۔ باغ میں پہنچ کر جب دیکھا تو مصعب ؓ اور اسعد ؓ دونوں کو بالکل مطمئن پایا اور اس سے وہ سمجھ گیا کہ اسید نے مجھے اس لیے بھیجا ہے کہ میں خود پہنچ کر ان کی بات سنوں۔ یہ خیال کر کے وہ ان دونوں کے سامنے جاکھڑا ہوا اور ان کو گالیاں دینے لگا اور اسعد بن زرارہ سے بولا اگر مجھ سے تیرا رشتہ نہ ہوتا تو پھر میرے متعلق تیری یہ جرات نہ ہوتی تو ہمارے گھر یعنی باغ کے اندر ایسی باتیں لے کر آتا ہے جو ہم کو ناگوار ہیں۔ چونکہ سعد کو دیکھتے ہی اسعد ؓ نے مصعب ؓ سے کہه دیا تھا کہ یہ آنے والا بھی اپنی قوم کا سردار ہے اگر اس نے تمہاری بات مان لی تو پھر اس کی قوم میں کوئی بھی تمہاری مخالفت نہیں کرے گا۔ معصب ؓ نے سعد ؓ سے کہا ذرا بیٹھ کر ہماری بات سن لیجیے اگر آپ کو دل پسند اور مرغوب ہو تو مان لیں ورنہ آپ کے ناگوار خاطر کام ہم آپ سے الگ رکھیں گے۔ سعد نے کہا ہاں تیری یہ بات ٹھیک ہے پھر اپنانیزہ زمین میں گاڑ گیا۔ مصعب ؓ نے اسلام پیش کیا اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا۔ مصعب ؓ اور اسعد ؓ کا بیان ہے کہ سعد کے چہرے کی چمک دمک اور بشاشت دیکھ کر ہی ہم سمجھ گئے کہ اسلام اس کو پسند آگیا چناچہ قرآن کریم سن کر سعد نے کہا جب تم مسلمان ہوتے ہو اور اس دین میں داخل ہوتے ہو تو کیا کرتے ہو۔ مصعب ؓ نے کہا کہ غسل کرلو۔ کپڑے پاک پہنو اور پھر کلمہ شہادت ادا کرو اور دو رکعت نماز پڑھو۔ سعد اٹھا جاکر غسل کیا پاک و صاف لباس پہنا شہادت حق ادا کی اور دو رکعت نماز پڑھی اور نیزہ لے کر قصداً اپنی قوم کی چوپال کی طرف گئے اور ساتھ میں اسید بن حضیر بھی تھے۔ قوم والوں نے ان کو آتا دیکھ کر کہا خدا کی قسم اب سعد ؓ کا وہ چہرہ نہیں جو جاتے وقت تھا۔ سعد ؓ نے قوم سے کہا اے بن عبدالاشہل تم مجھے اپنے اندر کیسا جانتے ہو قوم والوں نے کہا آپ ہمارے سردار ہیں سب سے زیادہ آپ کی رائے فضیلت رکھتی ہے آپ کا قول و عمل نہایت مبارک ہے سعد نے کہا تو پھر سن لو کہ تمہارے مردوں اور عورتوں سے بات کرنا مجھ پر حرام ہے جب تک تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لے آؤ سعد کے اسی قوم کے بعد بنی عبد الاشہل کے احاطہ میں کوئی مرد و عورت بغیر اسلام لائے نہیں رہا تھا۔ اسعد ؓ اور مصعب ؓ دونوں لوٹ کر اسعد ؓ کے گھر آگئے اس لیے کہ مصعب ؓ ان کے ہاں مقبم رہے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ انصار کے احاطوں میں کوئی احاطہ ایسا نہیں رہا تھا جس میں کچھ مرد اور عورتیں مستمان نہ ہوں۔ ہاں بنی امیہ بن زید اور حطمہ اور وائل او واقف کے احاطہ کے لوگ مسلمان نہ ہوئے کیونکہ ابو قیس بن اسلت شاعر ان میں وجود تھا اور یہ سب خاندان والے اس کی بات سنتے تھے اور اس کا کہا مانتے تھے اس نے سب کو اسلام سے روک دیا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے اور بدر ، احد اور خندق کی لڑائیاں بھی گزر گئیں اس کے بعد یہ لوگ ایمان لائے۔ اس کے بعد مصعب ؓ بن عمیر مکہ کو واپس چلے گئے اس وقت ان کے ساتھ ستر مسلمان انصار اور کچھ لوگ ابھی شرک پر قائم تھے وہ بھی حج کے لیے مکہ کو گئے مکہ پہنچ کر وسط ایمام تشریق میں عقبہ ثانیہ پر رسول اللہ ﷺ سے ان سب کی ملاقات ہونے کا وعدہ ہوا۔ یہی وہ بیعت ہے جو عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے۔ کعب ؓ بن مالک کا بیان ہے کہ میں اس موقع پر موجود تھا۔ ہم حج سے فارغ ہوئے اور وعدہ ملاقات والی رات آئی اور اس وقت ہم اپنے ساتھ والے مشرک لوگوں سے اپنی باتیں ظاہر نہیں کرتے تھے مگر ابو جابر عبداللہ بن عمرو بن حرم کو ہم نے بتادیا تھا اور اس سے گفتگو کرلی تھی اور کہه دیا تھا کہ آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک ہیں اور ہمارے بزرگ ہیں ہم نہیں چاہتے کہ آپ کل کو آگ کا ایندھن بنیں اس لیے جس حالت میں آپ ہیں اسی حالت میں آپ کو چھوڑ دینا ہم کو پسند نہیں مختصر یہ کہ اس کو ہم نے اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگیا اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے وعدہ ملاقات کی اس کو اطلاع دے دی اور وہ بھی عقبہ میں ہمارے ساتھ آگیا اور نقیب ہوگیا۔ وعدہ والی رات کا کچھ حصہ ہم نے اپنی فرودگاہوں میں ہی گزارا جب ایک تہائی رات گزر گئی تو ہم چپکے چپکے چھپتے چھپاتے قطا یعنی چکور کی چال سے نکلے اور عقبہ کی پاس گھاٹی میں پہنچ کر جمع ہوئے اس وقت ہم ستر مرد اور دو عورتیں تھیں ایک بنی نجار کی ام عمارہ نسیبہ بنت کعب اور دوسری بنی سلمہ کی ام منیع اسماء بن عمرو بن عدی۔ گھاٹی کے اندر ہم رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر رسول اللہ ﷺ حضرت عباس بن عبدالمطب ؓ کے ساتھ تشریف لائے۔ حضرت عباس ؓ نے فرمایا اے گرہ خزرج (خزج کا اطلاق اس جگہ انصار کے پورے گروہ پر ہوتا ہے خواہ ان میں اوس کے لوگ بھی ہوں) تم واقف ہو کہ محمد رسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہیں جو لوگ ہماری قوم میں ہمارے خیالات کے ہیں ان سے ہم نے آپ ﷺ کی حفاظت کی ہے۔ یہ اپنی قوم میں باعزت اور اپنے شہر میں حفاظت سے ہیں۔ لیکن یہ سب سے کٹ کر تمہارے پاس جڑنا چاہتے ہیں اور تم سے کٹنے پر راضی نہیں ہیں۔ پس سوچ لو اگر اس بات کو تم پورا کرسکو جس کے لیے ان کو بلا رہے ہو اور مخالفوں سے ان کی حفاظت کرسکو تو تمہاری ذمہ داری تم پر ہے اور اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ جب یہ تمہارے پاس پہنچ جائیں گے اور ان کو مدد کی ضرورت ہوگی تو تم ان کو بےمدد ، بےسہارا چھوڑد و گے تو ابھی سے ان کو چھوڑ دو ۔ یہ عزت و حفاظت کے ساتھ ہیں۔ کعب کا بیان ہے کہ ہم نے جواب دیا جو کچھ آپ نے فرمایا ہم نے اچھی طرح سن لیا ہے لیکن اے رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ خود کچھ ارشاد فرمائیے اور اپنے یے اور اپنے رب کے لیے ہم سے جو عہد لینا چاہیں لے لیجیے۔ راوی کا بیان ہے کہ اس پر رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس گویا ہوئے۔ آپ ﷺ نے پہلے قرآن کریم کی تلاوت کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا اور اسلام کی طرف راغب کیا پھر فرمایا کہ میں تم سے ان شرطوں پر بیعت لیتا ہوں کہ اپنے بیوی بچوں کی جس سے حفاظت کرو گے اس سے میری بھی حفاظت کرو گے یہ سن کر براء بن معرور نے دست مبارک پکڑ لیا اور عرض کیا قسم ہے اس کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم جس چیز سے اپنی اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں اس سے آپ ﷺ کی بھی حفاظت کریں گے۔ یا رسول اللہ ﷺ ماری بیعت قبول کیجیے ہم خود بھی جنگ جو ہیں اور دوسروں سے بھی تعاون کا ہمارا معاہدہ ہے جو بزرگوں سے موروثی چلا آتا ہے۔ برا ؓ رسول اللہ ﷺ سے بات کر ہی رہے تھے کہ ابو الہشیم بن تیہان بیچ میں بول اٹھے اور کہنے لگے یارسول اللہ ﷺ کچھ لوگوں سے ہمارے معاہدے ہیں اب ان کو ختم کرنا پڑے گا کہیں ایساتو نہیں ہوگا کہ ہم سب معاہدے ختم کردیں اور اللہ آپ ﷺ کو غلبہ عنایت فرمادے تو آپ ﷺ ہم کو چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف آجائیں۔ یہ کلام سن کر رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا نہیں تمہارا خون میرا خون ہے۔ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے جس سے تم لڑو گے میں بھی لڑوں گا اور جس سے تم صلح کرو گے میں بھی صلح کروں گا پھر آپ ﷺ نے فرمایا اپنے لوگوں میں سے بارہ نمائندے چھانٹ کر نکال لو جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کی طرح اپنی اپنی قوم کے ذمہ دار ہوں۔ حسب الحکم بارہ نمائندے چھانٹے گئے 9 خزرج میں سے اور 3 اوس میں سے۔ عاصم بن عمرو بن قتادہ کا بیان ہے کہ جب بیعت کے لیے لوگ جمع ہوئے تو عباس بن عبادہ بن نضلہ انصاری نے نے کہا اے گروہ خزرج ! کیا تم جانتے ہو کہ کس شرط پر تم آپ ﷺ کی بیعت کر رہے ہو۔ سن لو ہر گورے اور کالے سے لڑنے کی بیعت کر رہے ہو اگر تمہارا خیال ہو کہ جب تمہارے مالوں پر کوئی مصیبت پڑے گی اور تمہارے سردار مارے جائیں گے تو تم ان کو بےمدد چھوڑ دو گے تو اس وقت ہی بیعت نہ کرو ورنہ اس وقت خدا کی قسم دنیا و آخرت کی رسوائی نصیب ہوگی اور اگر مالوں کی تباہی اور سرداروں کی ہلاکت کے بوجود تم اپنے اس وعدے کو پورا کرسکتے ہو جس پر تم اس شخص کو دعوت دے رہے ہو تو اس کو لے لو خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی ہے۔ انصار نے جواب دیا ہم مالوں کی تباہی اور سرداروں کی ہلاکت ہوجانے کے بعد بھی ان کو نہیں چھوڑیں گے اور اس شرط پر ان کو قبول کر رہے ہیں لیکن اے اللہ کے رسول ﷺ اگر ہم نے یہ شرط پوری کردی تو ہم کو اس کے عوض کیا ملے گا نبی کریم ﷺ نے فرمایا آپ کو جنت ملے گی انصار نے عرض کیا پھر دست مبارک پھیلائیے۔ نبی کریم ﷺ نے ہاتھ پھیلایا تو سب نے بیعت کرلی سب سے پہلے براء بن معرور نے ہاتھ پر ہاتھ رکھا پھر یکے بعد دیگرے دوسرے لوگوں نے بیعت کی۔ بیعت ہوجانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ با تم اپنے اپنے پڑاؤ پر چلے جاؤ ۔ عباس بن عبادہ بن نضلہ نے عرض کیا کہ قسم ہے اس کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ﷺ چاہیں تو ہم کل صبح ہی اہل منیٰ پر تلواریں لے کو ٹوٹ پڑیں فرمایا مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے تم اپنی فرودگاہوں پر چلے جاؤ حسب الحکم ہم سب اپنی اپنی خواب گاہوں کی طرف لوٹ آئے اور سوگئے۔ صبح ہوئی تو قریش کے بڑے بڑے لوگ ہو اس کو ہمارے پاس سے نکال کرلے جانا چاہتے ہو اور ہمارے خلاف جنگ کرنے کے یے اس سے بیعت کر رہے ہو خدا کی قسم عرب کے کسی قبیلہ سے جنگ چھڑ جانا ہمارے نزدیک اتنی قابل نفرت نہیں جتنی تم سے ہے۔ یہ سن کر ہمارے یعنی خزرج اور اوس کے مشرک کھڑے ہوگئے اور اللہ کی قسمیں کھا کھا کر انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہمیں اس کا علم ہے حقیقت میں انہوں نے یہ بالکل سچ کہا تھا اس لیے کہ ان کو اس بیعت کا علم ہی نہ تھا۔ ان کی باتوں کے وقت ہم آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن خاموش تھے او اس کے بعد سب لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ قریش میں ایک شخص حارث بن مغیرہ مخزومی نئی جوتیاں پہنے ہوئے تھے میں نے ابو جابر سے ایک بات کہی گویا میں دوسرے قریش کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ میں مشرکین انصار کے کلام کی تائید کر رہا ہوں اور ابت یہ تھی کہ میں نے ان سے کہا ابو جابر تم ہمارے سرداروں میں سے ہو لیکن اتنی بھی تم میں استطاعت نہیں کہ اس قریشی جو ان کی جوتیوں کی طرح جوتیاں ہی بنوالو۔ حارث نے یہ بات سنی تو فوراً جوتیاں پاؤں سے نکال کر میری طرف پھینک دیں اور بولا خدا کی قسم اب ان کو تو پہنے گا ابوجابر نے کہا کہ ارے تو نے جوان کو غصہ دلا دیا جوتیاں واپس کر دے میں نے کہا میں تو واپس نہیں کروں گا۔ یہ شگون اچھا ہے اگر فال اچھی ہوئی تو خدا کی قسم میں اس کے کپڑے بھی اتارلوں گا۔ مختصر یہ کہ اس مضبوط معاہدہ کے بعد انصار مدینہ کو لوٹ گئے اور اس طرح مدینہ میں اسلام کا ظہور ہوگیا۔ قریش کو اس کی اطلاع ملی تو وہ سرول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کو مزید دکھ دینے لگے آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اللہ نے تمہارے کچھ بھائی بنا دیے ہیں اور امن کی ایک جگہ بھی دے دی تو تم ہجرت کر کے مدینہ چلے جاؤ اور اپنے انصاری بھائیوں میں مل کر رہو اس حکم پر سب سے پہل سلمہ بن عبداللہ مخزومی کے بھائی نے مدینہ کی طرف ہجرت کی پھر عامر بن ربیعہ نے پھر عبداللہ بن حجش نے پھر بےدرپے جتھے جانے لگے اس طرح اسلام کی وجہ سے اللہ نے مدینہ والے اوس اور خزرج کے قبیلوں کو متفق بنادیا اور سرول اللہ ﷺ کے ذریعہ ان میں باہم صلح کرا دی۔ اس مختصر تحریر میں عقل والوں کے لیے بیشمار نشانیاں ہیں اور ان گنت راہنمایاں دین اور سیاست کی ہدایات حاصل کرنے کے لیے یہ ایک یادگار ہے اور اس میں اس بات کی واضاحت بھی موجود ہے کہ دین اسلام کو پھیلانے کے لیے صحابہ کرام ؓ نے کیا کیا قربانیاں دیں اور اللہ تعالیٰ نے ان مناقشات کو کس طرح ختم کر ایاجو مدتوں سے ان کے درمیان چلے آرہے تھے اور جن کی وجہ سے ان کی کتنی نسلیں آپس میں لڑتی چلی آرہی تھیں اور اس طرح شیروشکر کرنے کے لیے اسلام نے کس طرح راہنمائی کی اور عزت والوں کی عزت کی دین اسلام نے کس طرح حفاظت کر کے ان کی عزت کو بحال رکھا اور کبھی ان کی عزت پر آنچ نہیں آنے دی دنیا تو دنیا تھی انہوں نے ان کو آخرت میں بھی عزت والا بنادیا اور اس صلہ میں انعام یہ پایا کہ ان کو بھی آج تک عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور قیامت تک عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ ان کے انہی کارہائے نمایاں نے ثابت کردیا کہ اسلام صلح و آشتی اور پیار و محبت کا داعی ہے اختلاف و افتراق اور گروہ در گروہ تقسیم کرنے کا داعی نہیں۔ گروہ در گروہ تقسیم ہونے کو آگ کے گڑھے پر کھڑے ہونے سے تشبیہ : 200: اللہ تعالیٰ نے اپنے دسرے احسان کا ذکر فرمایا ہے کہ تم وہ لوگ ہو کہ گویا ایک آگ سے بھری ہوئی خندق ہے اور تم اس کے کنارے کھڑے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو اس میں گرنے سے بچالیا۔ “ اس میں آگ کا گڑھا کیا تھا ؟ ظاہر ہے کہ قوم وہ افتراق و انتشار اور لڑائی جھگڑا اور کفروشرک کے وہ کام جو مدتوں کرتے چلے آرہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی توفیق عطا فرما کر اس میں دھکیلے جانے سے ان کو بچا لیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حنین کی فتح کے بعد جب مال غنیمت تقسیم کرتے مصحلت دین کے تحت رسول اللہ ﷺ نے بعض لوگوں کو زیادہ مال عطا کردیا تو کسی شخص نے کچھ ایسے ہی ناملائم الفاظ زبان سے نکال دیے جس پر رسول اللہ ﷺ نے جماعت انصار کو جمع کرکے ایک خطبہ دیا۔ آپ ﷺ نے اس میں یہ بھی فرمایا کہ اے جماعت انصار کیا تم گمراہ نہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہیں ہدایت دی ؟ کیا تم متفرق نہ تھے ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی۔ کیا تم فقیرنہ تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے تمہیں میری وجہ سے غنی کردیا۔ ان سب سوالوں کے جواب میں انصار برملا یہ کہنے لگے کہ ہاں ! ہم پر اللہ اور اس کے رسول کے اور بھی بہت سے احسان ہیں۔ مسلمانوں کا اسی طرح شیروشکرہونا یہودیوں کو ایک آنکھ بھی نہ بھاتا تھا انہوں نے کئی بار اس کی کوشش کی کہ مسلمانوں میں کسی نہ کسی طرح گروہ بندی اور اختلاف و انتشار کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ وہ موقعہ بموقعہ اوس و خزرج کے لوگوں کو بھڑکانے کے لیے ان کے گزشتہ واقعات ان کے سامنے دہراتے اور ان کو طیش دلاتے کہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح بھڑک کر آپس میں پھر لڑ جائیں۔ خود رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بھی وہ اس طرح کی شرارتیں کرتے رہے اور اکا دکا واقعات ایسے ہوئے بھی کہ لوگ آپ میں دوبارہ لڑنے پر اتر آئے۔ روایات میں یہ آیا ہے کہ ایک مرتبہ ان کا یہ داؤ چل گیا اور ان دونوں قبیلوں میں پرانی آگ بھڑک اٹھی یہاں تک کہ تلواریں کھنچ گئیں ٹھیک دو جماعتیں ہوگئیں اور وہی جاہلیت کی نعرہ بازی شروع ہوگئی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ لوگ حرہ کے مقام پر پہنچ کر دل کھول کر لڑنے پر آمادہ ہوگئے اور اس پیاسی زمین کو اپنے خون سے ایک بار پھر سیراب کریں گے لیکن نبی کریم ﷺ کو پتہ چل گیا اور آپ ﷺ فوراً موقع پر تشریف لائے اور دونوں گروہوں کو ٹھنڈا کیا اور فرمانے لگے کہ تم پھر جاہلیت کے نعرہ لگانے لگے ہو۔ میری موجودگی میں ہی تم پھر جہالت کی طرف لوٹ آئے ہو پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم کیا اور دونوں فریق نادم ہوئے اور اپنی دو گھڑی پہلے کی حرکت پر افسوس کرنے لگے اور آپس میں نئے سرے سے معانقے او مصافحے کیے اور بھائیوں کی طرح دوبارہ ایک دوسرے کے گلے مل گئے۔ سب نے ہتھیار ڈال دیئے اور صلح و صفائی ہوگئی۔ آج بدقسمتی سے مسلمانوں کے سارے گروہ اور سارے مکاتب فک ان آیات کریمات کو پڑھتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے کے لیے ہر وقت تیار نظر آتے ہیں۔ علمائے اسلام کی اکثریت ایسی ہوگئی ہے کہ ان کو ہر وقت متحارب رکھنے کی فکر میں ہیں اور ان کو نہ ختم ہونے والی لڑائیوں کے گر سکھاتے ہیں کہ کہیں یہ سب لوگ اکٹھے نہ ہوجائیں۔ آپس میں ایک دوسرے کو اس طرح دشمن سمجھتے ہیں کہ یہودی ، عیسائیوں اور دوسرے غیر مسلموں سے تو مل سکتے ہیں لیکن آپس میں علیک سلیک بھی نہیں کرسکتے۔ ایک مجلس میں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ رشتے ناطے نہیں کرسکتے حتی کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھ سکتے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا علاج کیا ہے کیونکہ یہ سب کچھ دین اسلام کے نام پر کرتے جا رہے ہیں۔ پھرتعجب ہے کہ آئے دنوں نئے نئے گڑھے کھودے جا رہے ہیں اور ان میں خوب آگ کے الاؤ روشن کر کے یہ داعیان اسلام گڑھوں کے کنارے اپنے اپنے لوگوں کو اکٹھا کرنے کی فکر میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ دھکم پیل ہو اور جو جس گڑھے میں گر جائے وہی شہید اور وہی دین و دنیا میں کامیاب و کامران ہے۔ ان کو کون بتائے کہ یہ اسلام نہیں بلکہ یہ تو عین کفر ہے۔ آپ نے اسلام کو کفر اور کفر کو اسلام کس طرح بنادیا ؟ اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ کی توفیق دے یا پھر اللہ تعالیٰ ہی کسی جرنیل کو ہمت عطا فرما دے کہ وہ ان سب کو پکڑ پکڑ کر ان ہی کے کھودے ہوئے گڑھوں میں ان کو جلا کر راکھ کردے۔ تاکہ عوام ان کے دام تزویر سے بچ جائیں۔ ذَالِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ ۔ آیت زیر نظر کے آخری جملہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” یہ دلیلیں تمہارے لیے اس لیے بیان کی جارہی ہیں تاکہ تم ہدایت پا جاؤ اور کفرچھوڑ کر ہدایت پر پوری طرح جم جاؤ اور روز بروز تمہاری ہدایت میں اضافہ ہوتا جائے پھر آگے اس کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیا۔
Top