Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 106
یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ١۫ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
يَّوْمَ : دن تَبْيَضُّ : سفید ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے وَّتَسْوَدُّ : اور سیاہ ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : لوگ اسْوَدَّتْ : سیاہ ہوئے وُجُوْھُھُمْ : ان کے چہرے اَكَفَرْتُمْ : کیا تم نے کفر کیا بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : اپنے ایمان فَذُوْقُوا : تو چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا كُنْتُمْ : کیونکہ تم تھے تَكْفُرُوْنَ : کفر کرتے
وہ دن کہ کتنے ہی چہرے اس دن چمک اٹھیں گے اور کتنے ہی چہرے سیاہ پڑجائیں گے ، سو جن لوگوں کے چہرے سیاہ پڑگئے ان سے اس دن کہا جائے گا کہ تم نے ایمان کے بعد پھر انکار حق کی راہ اختیار کرلی تھی تو جیسی کچھ تمہاری منکرانہ چال تھی اب اس کا نتیجہ میں عذاب کا مزہ چکھ لو
وہ دن کیسا ہوگا جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ سیاہ نظر آئیں گے ؟ : 205: اس آیت میں دنوں جگہ ” وجوہ “ کی تنوین ہے اور تنوین مضاف الیہ کے عوض میں بھی آتی ہے اور تنوین تکثیر کے لیے بھی۔ کوئی ایک مرادلی جائے یا دونوں مطلب ہر لحاظ سے واضح اور صاف ہے۔ اگر مضاف الیہ کی تنوین ہو تو ترجمہ ہوگا ” نیکو کاروں کے چرے سفید ہوں گے اور بدکاروں کے چہرے سیاہ ہوں گے “ اور اگر تکثیر کے لیے ہوتوترجمہ ہوگا ” اس روز بہت سے چہرے سفید ہوں گے اور بہت سے سیاہ ہوں گے یا کتنے ہی چہرے سفید ہوں گے اور کتنے ہی چہرے سیاہ ہوں گے۔ “ ابن عباس ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ اہل سنت کے چہرے گوے ہوں گے اواہل بدعت کے چہرے کالے ہوں گے۔ چہروں کا گورے (سفید) یا کالے (سیاہ) ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ سفیدی اور سیاہی رنگوں میں ہوگی یہ تو عام ہے لیکن عزت وذلت پر بھی ان الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ عربوں کے محاورہ میں بھی وہ شخص جو کسی عیب سے آلود نہ ہو اس کو ” ابیض الوجہ “ یعنی سفید چہرہ والا کہتے ہیں۔ مفسرین نے مونہوں کی سفیدی کے معنی ” خوشی “ اور سیاہی سے مراد ” غم “ لیا ہے۔ اور قرآن کریم نے خود بھی اس محاورہ کو دوسری جگہ خود استعمال کر کے ساری بات کی وضاحت فرما دی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے : ” وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہٗ مُسْوَدًّا وَّ ھُوَ کَظِیْمٌ. یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءٍ مَا بُشِّرَ بِہٖ .“ (النمل 16 : 58 ، 59) ” جب ان لوگوں میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو مارے رنج کے اس کا چہرہ کالا پڑجاتا ہے اور وہ غم میں ڈوب جاتا ہے جس بات کی اس کو خوشخبری دی گئی ہے وہ گویا ایسی برائی کی بات ہوئی کہ شرم کے مارے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے۔ “ یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کو بیٹی پیدا ہونے کی خبردی گئی ہو وہ سیاہ رنگ ہی کا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو جب بیٹی کی خوشخبری دی گئی تو اس کا چہرہ سیاہ پڑگیا مطلب یہ ہے کہ وہ خبر سنتے ہیں مغموم ہوگیا۔ بلکہ یہ محاورہ اردو میں بھی عام بولا جاتا ہے کہ فلاں نے ” منہ کالا کرلیا “ یعنی وہ گناہ میں آلودہ ہوگا۔ پھر فطرةًبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان جب کوئی اچھاکام کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں تو اس کا چہرہ چمک دمک اٹھتا ہے اور اگر کوئی چور چوری کرتے پکڑا جائے و وہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ گویا اس کا چہرہ سیاہ پڑگیا یعنی مرونی سی چھا گئی ہشاش بشاش دکھائی نہیں دیتا۔ جب کسی پر کوئی الزام لگایاجاتا ہے تو اگر وہ مجرم ہو تو اس کے چہرہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس نے جرم کیا ہے او اگر غلط الزام لگایا گیا ہو تو بھی اس کا چہرہ عام طور پر چہرہ شناسوں کو بتا دیتا ہے کہا صل صورت حال کیا ہے۔ آیت زیرنظر میں ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے خواہ مخواہ اختلاف کر کے لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کرنے کا کام سرانجام دیا ہے یا دے رہے ہیں ان کے چہرے سیاہ ہوں گے اور جن لوگوں نے لوگوں کو اختلاف ختم کر کے ایک جسم وجان ہونے کی دعوت دی اور گروہ بندی سے روکنے کی کوشش کی ان کے چہرے سفید ہوں گے۔ آئیے اب قرآن کریم سے پچھتے ہیں کہ وہ کیا ارشاد فرماتا ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ : وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌۙ0038 ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌۚ0039 وَ وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌۙ0040 تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌؕ0041 اُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ (رح) 0042 (العبس 83 : 38۔ 42) ” کتنے ہی چہرے اس دن نور ایمان سے منور ہوں گے۔ ہشاش بشاش ، خوش و خرم (یہ نیکوکاروں کی جماعت ہوگی) اور کتنے ہی چہرے اس دن غبار آلودہ ہوں گے۔ جن پر سیاہی چھائی ہوگی۔ یہی لوگ کافر و بدکار ہوں گے۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہوتا ہے : وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌۙ002 عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌۙ003 تَصْلٰى نَارًا حَامِیَةًۙ004 تُسْقٰى مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَةٍؕ005 (الغاشیة 88 : 2۔۔ 5) ” کتنے ہی چہرے اس دن اپنی بداعمالیوں کے باعث ذلیل و خوار ہوں گے۔ دنیا میں یہ لوگ بلا ایمان کے محنت کرنے والے تھے لیکن آخرت میں تھکے ہوئے خستہ حال ہوں گے۔ یہ لوگ دھکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔ ان کو کھولتے ہوئے چشمہ سے پانی پلایاجائے گا۔ “ پھر ارشاد ہوتا ہے : وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاعِمَةٌۙ008 لِّسَعْیِهَا رَاضِیَةٌۙ009 فِیْ جَنَّةٍ عَالِیَةٍۙ0010 لَّا تَسْمَعُ فِیْهَا لَاغِیَةًؕ0011 (الغاشیہ 88 : 8۔ 11) ” کتنے ہی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اپنے نیک اعمال سے وہ خوش ہوں گے۔ یہ عالی شان جنت میں ہوں گے۔ جس میں وہ کوئی فضول بات نہیں سنیں گے۔ “ ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . اِِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ . وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ بَاسِرَۃٌ . تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ . (القیمہ 75 : 22 ، 25) ” کتنے چہرے اس روز تروتازہ ہوں گے۔ اپنے پروردگار کے دیدار میں محو ہوں گے۔ اور کتنے ہی چہروں پر اسدن غم سے اداسی چھائی ہوگی۔ وہ خیال کرتے ہوں گے کہ ان پر ایسی سختی ہوگی جوان کی کمر توڑ دے گی۔ “ ان آیات کے پیش نظر اس بات میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ زیر نظر آیت میں جن چیزوں کے گورے ہونے کا ذکر ہے وہ وہی لوگ ہیں جو قوم کے اختلاف و افتراق کو مٹانے کی کوشش کرتے رہے اور وحدت قوم کا درس دیتے رہے اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کی تلقین کرتے اور جن چہروں کے سیاہ ہونے کا ذکر ہے وہ وہی لوگ ہیں جو اختلاف ڈال کر گروہ گروہ متفرق ہوئے اور تفریق بین المؤمنین کے مرتکب ہوئے اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوی لگا کر اپنے نامہ اعمال کو سیاہ کرتے رہے۔ جن لوگوں کے چہرے بد اعمالیوں کی وجہ سے سیاہ ہوں گے ان کی سزا کا اعلان الٰہی : 206: آیت کے اس حصہ میں ان لوگوں کی سزاؤں کو بیان کیا جارہا ہے جن لوگوں نے قوم میں اختلاف ڈال کر اس کو متفرق کردیا یا ان کے چہرے بداعمالیوں کی وجہ سے قیامت کے دن سیاہ پڑگئے۔ چہروں کا سیاہ ہونا خود ہی کوئی کم سزا نہ تھی ان سے مزید کہا جا رہا ہے کہ چونکہ رسول اللہ ﷺ اور کتاب اللہ پر ایمان لانے کے بعد پھر تم نے قطعی دلائل کا انکار کیا اور دین میں تفرقہ کیا اور طرح طرح کے اختلاف کے پیچھے پڑگئے۔ پس اب انپے اس کفر کرنے کی پاداش میں عذاب کا مزا چکھو۔ یہ آیت اس امت اور گزشتہ امتوں کے بدعتیوں کے حق میں نازل ہوئی۔ حضرت ابو امامہ ؓ اور قتادہ ؓ کا یہی قول ہے امام احمد ﷺ نے ابو امامہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ خارجی ہیں لیکن حضرت اسماء کی روایت کردہ حدیث بتا رہی ہے کہ اس آیت میں اہل الرائے مراد ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حوض پر دیکھتا رہوں گا کہ کون کون میرے پاس آتا ہے کچھ لوگ مجھ سے پرے ہی پکڑ لیے جائیں گے یعنی ان کو حوض پر نہیں آنے دیاجائے گا میں کہوں گا اے رب ! یہ تو میرے ہیں کیونکہ میری امت کے افراد ہیں جواب دیا جائے گا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کیا ؟ خدا کی قسم یہ برابر اپنی ایڑیوں کے بل تمہاری ہدایت سے لوٹتے رہے۔ (بخاری) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ان فتنوں سے پہلے عمل کرلو جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح آئندہ چھا جائیں گے صبح کو آدمی مؤمن ہوگا اور شام کو کافر۔ شام کو کافر ہوگا اور صبح کو مؤمن۔ دین کو دنیا کے حقیر سامان کے عوض بیچ ڈالے گا۔ (رواہ احمد و مسلم والترمذی)
Top