Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 107
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْهُهُمْ فَفِیْ رَحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَاَمَّا : اور البتہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو ابْيَضَّتْ : سفید ہوں گے وُجُوْھُھُمْ : ان کے چہرے فَفِيْ : سو۔ میں رَحْمَةِ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت ھُمْ : وہ فِيْھَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور جن لوگوں کے چہرے چمک رہے ہوں گے سو یہی لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوں گے ہمیشہ رحمت الٰہی میں رہنے والے
جن کے چہرے گورے ہوں گے ان کا مختصر حال : 207: جن لوگوں کے چہرے سفید یعنی گورے ہوں گے نیک اعمال کرنے والے اور لوگوں کے درمیان اختلاف کو مٹانے والے اور مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوط تھامنے کا درس دینے والے ” فَفِىْ رَحْمَةِ اللّٰهِ “ وہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت یعنی جنت اور لازوال ثواب و اجر میں ہوں گے اس جگہ جنت کی تعبیر لفظ رحمت کے ساتھ کرنے سے اس امر پر تنبیہه کی گئی ہے کہ مؤمن کی چاہے پوری عمر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف ہوئی ہو مگر جنت میں اس کا داخلہ اللہ کی رحمت اور فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا راستی اختیار کرو اور درمیانی رفتار سے چلو اور خوش رہو کیونکہ جنت کے اندر کسی کو صرف اس کے اعمال نہیں لے جائیں گے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کیا آپ ﷺ کو بھی ؟ فرمایا ہاں مجھ کو بھی اللہ اپنی مغفرت اور رحمت سے مجھ کو ڈھانک لے گا۔ (مسلم و بخاری) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ تم میں کسی کو صری اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا اور نہ دوزخ سے بچائے گا اور نہ مجھے سوائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے۔ یاد رہے کہ جنت میں مختلف مدارج و مراتب ہیں بلند سے بلند درجات تک پہنچنا بھی جنت ہی میں پہنچنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کے سہارے بلند سے بلند مقامات پر آدمی فائز ہوسکتا ہے۔ یہ الفاظ اس طرح بیان کیے ﴾گئے اور دراصل اس سے مراد جنت کے بلند درجات تک پہنچنے سے ہے کہ جنت کے بلند مقامات پر پہنچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل ہی شامل حال ہوناچاہیے ورنہ ان مقامات پر پہنچنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں خواہ وہ کوئی ہو۔ یہ اس لیے بیان کرنا پڑا کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ اُدْخُلُوْا الْجَنَّةَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلَوْنَ اس آیت میں اعمال کو جنت کے داخلہ کا سبب بتایا گیا ہے اور اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال نہ ہو تو انسان نیک اعمال کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کا اپنا نفس بھی نیک کاموں کے راستہ میں حائل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جس کو نیک عمل کی توفیق دی گئی اس نے خیر کثیر حاصل کرلی۔ کیونکہ کسی شخص کا نیک اعمال کرنا بھی اس وقت ممکن ہے جب اللہ کا فضل شامل حال ہو۔ آخر میں فرمایا کہ ” ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ “ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت یا جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ مستقل جملہ ماقبل کی تاکید بھی ہے اور اس امر کی طرف اشارہ بھی کہ رحمت یعنی ابتدائی داخلہ مستقل نعمت ہے اور جنت کے اندر ہمیشہ ہمیشہ کا قیام ایک الگ مستقل نعمت ہے کہ چپڑی بھی اور دو دو بھی ہوں تو پھر کیا ہی بات ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم ہی سے ہوسکتا ہے کسی انسان کے اختیار کی بات نہیں۔
Top