Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 111
لَنْ یَّضُرُّوْكُمْ اِلَّاۤ اَذًى١ؕ وَ اِنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ یُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَارَ١۫ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ
لَنْ : ہرگز يَّضُرُّوْكُمْ : نہ بگاڑ سکیں گے تمہارا اِلَّآ : سوائے اَذًى : ستانا وَاِنْ : اور اگر يُّقَاتِلُوْكُمْ : وہ تم سے لڑیں گے يُوَلُّوْكُمُ : وہ تمہیں پیٹھ دکھائیں گے الْاَدْبَارَ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ : پھر لَا يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد نہ ہوگی
وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر وہ جو تم کو دلی اذیت ہوگی اگر وہ تم سے لڑیں گے تو انہیں لڑائی میں پیٹھ دکھانی پڑے گی وہ کبھی فتح مند نہ ہوں گے
ان کی مخالفت سے تمہارا کچھ نہی بگڑے گا ایک پیش گوئی کا اعلان : 214: اس آیت کی تین پیش گوئیوں میں سے ایک پیش گوئی ہے۔ جو اس وقت کی گئی جب ابھی یہود پوری طاقت اور قوت کے ساتھ مدینہ منورہ اور مضافات مدینہ میں رہ رہے تھے۔ اس وقت ابھی ان کا مدینہ اور حوالی مدینہ میں بڑا زور اور غلبہ تھا۔ قرآن کریم میں نبی اعظم و آخر ﷺ سے اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اعلان کوا دیا کہ یہود اپنے بڑاے بڑے اور مضبوط قلعوں کے باوجود اور بڑے بڑے خزانوں کے مالک ہونے کے باوجود مسلمانوں کو ہرگز کوئی قابل ذکر نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور یہ اعلان گویا رسول اللہ ﷺ کا ایک زندہ جاوید معجزہ ہے جو آج بھی زندہ موجود ہے اور قیامت تک زندہ و تابندہ رہے گا۔ اور اس کو غلط ثابت کرنے والے حرف غلط کی طرح مٹادیئے جائیں گے۔ اور اس کی صداقت دنیا دیکھتی آئی ہے اور یہ دیکھتی رہے گی۔ ہاں ! ان کا معمولی دکھ دینا۔ وہ بھی اس لئے کہ جب مسلمان قوم سونے لگے تو اس کو پھر جگا دیا جائے۔ اذی حیض کے خون کو بھی کہا گیا ہے۔ اس لئے ان دنوں کو جو عورت کے لئے حیض کے دن ہوتے ہیں اذیت کے دن کہا جاتا ہے۔ اس میں معمولی تکلیف تو ضرور ہوتی ہے۔ لیکن یہ معمولی تکلیف ایک بہت بڑی خوشخبری کا پیش خیمہ ہوتئی ہے اور اس معمولی تکلیف کے نہ ہونے سے نسوانی زندگی زندگی نہیں بلکہ موت بن کر رہ جاتی ہے۔ اس لئے تکلیف کا ہونا بھی باعث برکت ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس کا ہوتے رہنا ہی بہت بڑے ضر سے بچاؤ ہے۔ ایک دوسری جگہ ارشاد الٰہی اس طرح بیان ہوا ہے : وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِرًہوا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ (ال عمران : 186:6) اور مسلمانوں ! ایسا تو ہوتا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین سے تمہیں دکھ پہنچانے والی باتیں بہت کچھ سننی پڑیں لیکن اگر تم نے صبر کیا یعنی ان مصیبتوں میں ثابت قدم رہے اور تقویٰ کا شیوہ اختیار کیا یعنی احکام حق کی نافرمانی سے بچتے رہے تو بلاشبہ بڑے کاموں کی راہ میں یہ بڑے ہی عزم و ہمت کی بات ہے۔ “ عالم دنیا میں اس وقت جو مسلمانوں کو حالات پیش آرہے ہیں ان سے کہیں زیادہ خطرناک حالات سے پہلے گزارے جا چکے ہیں۔ غیر مسلم مل کر جو ریشہ دوانیاں اس وقت کر رہے ہیں اس سے کہیں بہت بڑھ کر وہ پہلے کرچکے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنے مسلمان موجود اتنے اس سے پہلے کبھی نہیں تھے جو وسائل اور خزائن او وقت عالم اسلام کے پاس موجود ہیں وہ اس وقت نہیں تھے۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کا ایمان و عزم اتنا پختہ تھا۔ کہ وہ قرآن کریم کی آیت پڑھتے تھے۔ تو ان کے دل اتنے نطمئن ہوجاتے تھے۔ اور وہ جس میدان میں جا اترتے تھے۔ سچے دل اور پوری ایمانی قوت سے اترتے تھے۔ اس وقت بھی اگر قوم مسلم اس عزم و ہمت اور ایمانی قوت سے کام لے اور اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی ان آیت محکمات کو دل و جان سے قبول کرے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو نیچا نہیں دکھا سکتی اور نصرت الٰہی آج بھی اس کی اس طرح مدد گار ثابت ہوگی کہ صدر اول میں مددگار ہوئی تھی۔ آگے چل کر ارشاد الٰہی ہوتا ہے کہ : وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ (ال عمران : 3:120) ” یاد رکھو اگر تم نے صبر کیا یعنی مصائب و مشکلات میں ثابت قدم رہے اور تقویٰ کی راہ اختیار کی یعنی احکام الٰی کی نافرمانی سے پور طرح بچتے رہے تو ان کا مکرو و فریب تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گا جیسے کچھ بھی ان کے کرتوت ہیں خدا کی قدرت انہیں گھیرے ہوئے ہے۔ “ یہود کے متعلق دوسری پیش گوئی کا اعلان خداوندی : 215 : آیت زیر نظر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوسری پیش گوئی مسلمانوں کو یہ سنائی گئی کہ ” اگر وہ تم سے لڑیں گے تو انہیں لڑٓئی میں پیٹھ ہی دکھانا پڑے گی۔ “ پوری دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ پیش گوئی بھی آج تک بحمداللہ پوری ہوتی آئی ہے اور رہتی دنیا تک پوری ہوتی رہے گی۔ یہ آئت آج بھی للکار رہی ہے کہ کوئی ایک مثال ایسی بتا دو جہاں یہودیت نے اپنے سارے وسائل کے باوجود اسلام کے مقابلہ میں میدان جنگ میں کامیابی حاصل کی ہو۔ یاد یہ رکھنا ہے کہ اس آیت میں قوم یہود مخاطب ہے نصاریٰ نہیں۔ دوسری بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ یہود کے بالکل نیست و نابود ہوجانے کی پیش گوئی نہیں بلکہ یہود کے من حیث القوم دنیا میں موجود رہنے کی پیش گوئی ہے اور اعلان یہ کیا گیا ہے۔ کہ یہود اپنی ساری طاقت اور ساری قوت خواہ وہ مالی ہو یا افرادی اسلام کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہاں ! مسلمانوں کو ان سے معمولی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ فلسطین میں یہودآج سے نہیں بلکہ اسلام کے جنم لینے سے بھی ہزاروں سال پہلے سے آباد چلے آرہے ہیں۔ ان کی پوری تاریخ ان کی بزدلی ان کے چین پر شہادت دے رہی ہے اور خصوصا ً محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد وہ ہمیشہ ذلیل و خوار رہے ہیں آج بھی وہ مسلمانوں کی گروہ بندیوں اور فرقہ بازیوں کے باوجود مسلمانوں کا مقابلہ نہی کرسکتے اور رہتی دنیا تک نہیں سکیں گے۔ نہ معلوم مسلمان بادشاہوں نے قرآن کریم کو کبھی دیکھا ہی نہیں پڑھا اور سنا ہی نہیں اس قدر وہ پست ہمت ہوچکے ہیں کہ وہ دوسرے غیر مسلموں کے سہارے ڈھونڈ رہے ہیں۔ انہی پیش گوئیوں کی بناء پر یہود آج بھی مسلمانوں سے خائف ہیں اور وہ نصاریٰ کے سہارے اپنے وجود کی بقاء چاہتے ہیں۔ ان کو اچھ طرح یہ بات معلوم ہے اور آج سے نہیں بڑی مدت سے جب سے اسلام نے اس سر زمین میں قدم رکھے کہ وہ بغیر کسی سہارے کے زندہ نہیں رہ سکتے یعنی من حیث القوم ان کا وجود کسی سہارے کے بغیر روئے زمین پر باقی نہیں رہ سکتا۔ دنیا گواہ ہے کہ پوری دنیا میں جتنی مال دار دنیوی وسائل رکھنے والی یہ قوم ہے کہ کوئی اور قوم نہیں لیکن اس کے باوجود ان کو محمد رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئیاں آج بھی اسی طرح ذلیک و خوار کئے ہوئے ہیں جیسا کہ ان پیش گوئیوں نے خود رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ان کو ذلیل و خوار کیا تھا۔ لیکن مسلمان ہیں کہ وہ ان پیش گوئیوں کی روشنیوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ یہود و انصاریٰ کے گٹھ جوڑنے عالم اسلام کو اکٹھا نہیں ہونے دیا اور ان کا جب تک بس چلے گا وہ ایسا کبید نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن قانون الٰہی اپنی جگہ پر اٹل اور ان مٹ شے ہے وہ کسی قوم کی ریشہ دوانیوں اور گٹھ جوڑ سے کبھی خائف نہیں ہوتا۔ حقیقت تو قادر مطلق ہی جانتا ہے ہم اتنا یہ کہ سکتے ہیں کہ جو مسلمانوں کے کرنے کا کام ہے وہ انہوں نے چھوڑ دیا تو اللہ کے پاس ایسی مخلوق کی کمی نہیں وہ جس سے چاہے گا کام لے لے گا۔ لیکن اس کی پیش گوئیاں کبھی غلط نہیں ہو سکتیں۔ دعویٰ کیا ہے ؟ کان کھول کر سن لو اور یاد رکھو دعویٰ یہ ہے کہ ” اگر یہود تم سے لڑیں گے تو انہیں لڑائی میں پیٹھ دکھانی پڑے گی۔ “ اس سلسلہ کی تیسری پیش گوئی جس کا اعلان اس آیت میں موجود ہے : 216 : اس آیت میں جو تین پیش گوئیاں کی گئی ہیں ان میں سے تیسری یہ ہے کہ ” وہ کبھی فتح مند نہیں ہوں گے “ ظاہر ہے کہ اس فتح مندی سے وہی فتح مندی مراد ہے جو اسلام کے مقابلہ میں جنگ لڑکر فتح حاصل کی جائے اور یہ آج تک نہیں ہوا اور آئندہ قیامت تک نہیں ہو سکے گا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس سے مراد یہود ہیں نصاریٰ نہیں۔ اس وقت مشرق و سطیٰ کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن اس کے باوجود جب بھی کوئی انسان ذرا کہرائی میں اتر کر تاریخ اکامطالعہ کرے گا تو اس کو معلوم ہوجائے گا کہ وہاں جو کچھ ہو رہائے اس میں زیادہ حصہ خود مسلمانوں کا پنا ہے۔ مسلمانوں میں وہ دیانت و امانت نہ رہی جو ہانا چاہیے تھی۔ اسلام نے غیروں کی دوستی کے لیے جو کچھ کہا تھا وہ ہم کو یاد نہ رہا۔ اسلام نے جن باتوں سے منع کیا تھا ان سے ہم باز نہ رہے۔ اسلام نے سیاست دان کے لئے جو ہدایت دی تھیں ان کو ہم نے پس پشت ڈال دیا۔ پھر اس علاقے کے اندر جو اتار چڑھاؤ جو دوسروں کے سہارے ہوتا چلا آیا ہے۔ وہ پورے علام اسلام کے مقابلہ میں اذی تو ہو سکتا ہے لیکن ضرر نہیں۔ ان کو شرارتیں تو کہا جاسکتا ہے۔ لیکن عالم اسلام کے ساتھ مضمون پر قرآن کریم کی مزید شہادتیں ایک نظر دیکھ لو اور ان پر اسی طرح ایمان رکھو جس طرح ایک مسلم کو قرآن کریم پر ایمان رکھنے کا حکم ہے اور غیروں پر نظر رکھنے کی بجائے قرآن کریم کی ان ہدایت پر نظر رکھو یقینا یہ ہم سب کے لئے دین میں کامیاب و کامران رہنے کا ایک نہایت پختہ اور نہ ٹوٹنے والا سہارا ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : وَلَوْ قٰتَلَکُمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوْا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلاَ نَصِیْرًا سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا (الفتح : 48: 23 ۔ 22) اور اگر تم سے یہ کافر لڑتے تو یہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے۔ پھر وہ نہ کسی کو دوست پاتے اور نہ مددگار۔ اللہ کا یہ دستور پہلے سے چلا آرہا ہے۔ اور آپ اللہ کی سنت میں کبھی فرق یعنی ردوبدل نہ پائیں گے۔ بلاشعبہ آیت کا شان نزول صلح حدیبیہ کے متعلق ہے لیکن آیت کا حکم عام ہے کسی خاص واقعہ کی وجہ سے حکم عام کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک دوسری جگہ ارشاد اس طرح ہوتا ہے : اَلَمْ تَرَ اِِلَی الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِِخْوَانِہِمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَلاَ نُطِیْعُ فِیْکُمْ اَحَدًا اَبَدًا وَّاِِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ لَئِنْ اُخْرِجُوْا لاَ یَخْرُجُوْنَ مَعَہُمْ وَلَئِنْ قُوْتِلُوْا لاَ یَنْصُرُوْنَہُمْ وَلَئِنْ نَّصَرُوْہُمْ لَیُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ ثُمَّ لاَ یُنْصَرُوْنَ لَاَنْتُمْ اَشَدُّ رَہْبَۃً فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنَ اللّٰہِ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ لاَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعًا اِِلَّا فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرَآئِ جُدُرٍ بَاْسُہُمْ بَیْنَہُمْ شَدِیْدٌ تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰی ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْقِلُوْنَ (الحشر : 89:14 ۔ 11) ” تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنہوں نے منافقت کی روش اختیار کی ہے ؟ یہ اپنے کافر اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات ہرگز نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ مگر اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ قطعی جھوٹے ہی اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ ہرگز نہیں نکلیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد کریں بھی تو پیٹھ پھیر جائیں گے اور پھر کہیں سے کوئی مدد نہ پائیں گے۔ ان کے دلوں میں اللہ سے بڑھ کر تمہار خوف ہے اس لئے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ کبھی بھی اکٹھے ہو کر کھلے میدان میں تمہارا مقابلہ نہ کریں گے۔ لڑیں گے بھی تو قلعہ بند بستیوں میں بیٹھ کر دیواروں کے پیچھے چھپ کر۔ یہ پس کی مخالفت کے بڑے سخت ہیں تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ “ اس مضمون پر غور کرنے والوں کے لئے بہت سی راہنمائیاں ہی اور تفصیل کس یہ مقام نہیں۔
Top